کراچی: بازیاب ہونے والے بچوں ایان، انابیہ کو ضیا الدین اسکول میں داخلہ مل گیا
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد بلاک ایچ میں گھر سے لاپتا ہونے والے 2 کم عمر بہن بھائی ایان اور انابیہ کوضیا الدین اسکول میں داخلہ مل گیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق ایان اور انابیہ کو ضیا الدین ہسپتال کے چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی ہدایت پر ضیا الدین اسکول میں داخلہ دیا گیا ہے۔
ایان اور انابیہ کے تعلیمی اخراجات ڈاکٹر ضیا الدین ٹرسٹ کی جانب سے برداشت کیے جائیں گے، ڈاکٹر عاصم حسین نے دونوں بچوں کو اسکول سے لے گریجویشن تک مفت تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ 14 مارچ کو کراچی کی مقامی عدالت نے نارتھ ناظم آباد (بلاک ایچ) سے پر اسرار طور پر لاپتا ہوکر بازیاب ہونے والے 2 کم عمر بہن بھائی کو دوسری خالہ کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔
گمشدگی
یاد رہے کہ 13 مارچ کو نارتھ ناظم آباد سے 2 کم عمر بچے لاپتا ہو گئے تھے، لاپتا ہونے والے بچوں کے ماموں نے بتایا تھا کہ ایان اور انابیہ رات کو 11 بج کر 50 منٹ پر نیچے اترے تھے، اہلخانہ کا کہنا تھا کہ پولیس کواطلاع کردی گئی ہے لیکن تاحال کوئی مدد نہیں کی گئی۔
دوسری جانب حیدری کے اسٹیشن ہاؤس افسر نے بتایا کہ نارتھ ناظم آباد سے لاپتا ہونے والے بچوں کی تلاش جاری ہے، پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیجز چیک کرنا شروع کردیں ہیں، بچوں کی گمشدگی کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔
لاپتا بچوں کی والدہ نے سوشل میڈیا پر مدد کے لیے پوسٹ بھی جاری کردی تھی، اپنے بیان میں والدہ نے بتایا کہ بچوں کو ہر جگہ ڈھونڈا لیکن کوئی معلومات نہ مل سکی ہیں، اگر کسی کو بچوں سے متعلق کچھ پتا ہو تو ضرور اطلاع دیں۔
لاپتا بچوں کے والد کے مطابق انہیں سحری کے وقت بچوں کی گمشدگی کی اطلاع ملی۔
بازیابی
بعدازاں گمشدہ بچوں کی والدہ شمائلہ نے کمسن ایان اور انابیہ کے ملنے کی تصدیق کردی تھی۔
والدہ نے بتایا کہ 2 نامعلوم افراد بچوں کو حیدری چھوڑ کر چلے گئے تھے، انہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی تھی کہ بچوں کو حیدری پر چھوڑ دیا جائے گا، جب ان کے بھائی اس مقام پر پہنچے تو بچے وہاں موجود تھے۔
پولیس حکام نے بتایا تھا کہ بچوں کا بیان قلمبند کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ جو افراد لے کر گئے تھے اگر ان کی شناخت ممکن ہے تو ان کا خاکہ بنایا جائے گا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کا کہنا تھا کہ مختلف مقامات پر تفتیش کی گئی ہے اور کوشش کی گئی کہ ملزمان کا روڈ میپ بنایا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حیدری مارکیٹ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364-اے کے تحت ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
دوسری جانب ترجمان رینجرز کا کہنا تھا کہ یہ اغوا کا کیس تھا جسے پیرا ملٹری فورس اور پولیس نے مل کر ناکام بنادیا۔
ترجمان رینجرز نے مزید کہا کہ کم سن بہن بھائی کی والدہ کو بیرون ملک سے تاوان کی کال آئی تھی اور اغوا کاروں نے 10 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ رینجرز اور پولیس نے اطلاع ملنے پر تکنیکی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بچوں کا سراغ لگایا، اغوا کاروں نے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے بچوں کو حیدری مارکیٹ میں چھوڑ دیا۔
بچوں اور والدہ کے متضاد بیانات
بچوں نے گھر پہنچ کر بتایا کہ وہ خود گھر سے گئے تھے کیونکہ ان کی خالہ ان سے واشروم اور برتن دھلواتی تھیں اور اُن پر تشدد کرتی تھیں۔
پولیس حکام نے بتایا کہ یہ ابتدائی طور پر بچوں کی جانب سے بیان سامنے آیا جبکہ مزید تحقیقات جاری ہے۔
پولیس نے کہا کہ بچوں نے بیان دیا ہے کہ وہ پہلے نارتھ کراچی کی فوڈ اسٹریٹ پر موجود تھے اور انہوں نے کافی وقت وہاں گزارا پھر وہ مختلف گلیوں میں ٹہلتے رہے اور رات انہوں نے سڑکوں اور گلیوں پر ہی گزاری۔
بعدازاں دونوں بچوں کی والدہ شمائلہ ناز کا متضاد بیان سامنے آیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ کیس اغوا کا تھا، پولیس نے اسے کہیں اور موڑ دیا۔
والدہ کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں بچوں سے جو کہلوایا جا رہا ہے اور اس تمام وقت میں بچوں کو کتنا ٹارچر کیا گیا ہوگا کہ وہ ایک ہی بات بار بار دہرائے جارہے ہیں، خدا کا واسطہ ریٹنگز کے لیے میرے خاندان کی عزت سے نہ کھیلیں۔
واضح رہے کہ بچوں کے والد نے 8 سال قبل اہلیہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، ان کی والدہ دبئی میں ملازمت کرتی ہیں، دونوں بچے اپنے ماموں راشد کے ساتھ ہی رہتے تھے۔