پاکستان

بھارت ’افغان پراکسیز‘ کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی کی فنڈنگ کر رہا ہے، پاکستانی سفیر

کالعدم ٹی ٹی پی کے 5 سے 6 ہزار عسکریت پسند افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ان کے خاندانوں کو بھی شامل کریں تو تعداد 70 ہزار تک پہنچ جائے گی، آصف درانی

پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغان پراکسیز کے ذریعے بھارت سے پیسہ مل رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آصف درانی نے گزشتہ روز اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کے زیراہتمام ’افغان امن عمل‘ کے حوالے سے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اندازے کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے 5 ہزار سے 6 ہزار عسکریت پسند افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، اگر ہم ان کے خاندانوں کو بھی شامل کریں تو یہ تعداد 70 ہزار تک پہنچ جائے گی۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پپس) کے زیرِ اہتمام مباحثوں میں 12 واں سیشن ’افغان امن اور مفاہمت: پاکستان کے مفادات اور پالیسی آپشنز‘ پر مشاورت تھا۔

آصف درانی نے کہا کہ ماضی میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کے امن مذاکرات ناکام ہوئے کیونکہ یہ عسکریت پسند گروپ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان کے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے کے لیے تیار تھا۔

انہوں نے کہا کہ واضح ہے کہ افغانستان میں ان کی نگہداشت کی قیمت کوئی اور ادا کر رہا ہے کیونکہ افغان حکومت اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے یومیہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات میں تعطل کی تیسری بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ کالعدم گروہ اپنے کیے گئے گھناؤنے جرائم، بشمول آرمی پبلک اسکول پشاور (اے پی ایس) پر حملے کے لیے قانون کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔

آصف درانی نے کہا کہ پاکستان نے مذاکرات کے دوران افغان حکومت سے کہا تھا کہ انہیں کالعدم ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا چاہیے اور اس کالعدم گروہ کو غیرمسلح کرکے اس کی قیادت کو حراست میں لینا چاہیے، انہیں واضح کیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے ’ریڈ لائن‘ ہے۔

پاک-افغان بارڈر کراسنگ کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تمام سرحدی گزرگاہوں پر ایک-دستاویزی نظام (ون-ڈاکیومنٹ رجیم) نافذ کرنا چاہیے۔

’افغانستان کو اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے‘

سابق وفاقی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور اور رہنما تحریک انصاف (پی ٹی آئی) علی محمد خان نے کہا کہ افغانستان کو اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے، پاکستان قیام امن میں اپنے پڑوسی ملک کی مدد کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ سرحدیں کھولنا اور تجارت پاکستان کے مفاد میں ہے، خیبرپختونخوا کی وسیع تجارتی صلاحیت کو افغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالمالک بلوچ نے پارلیمانی بالادستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے تمام معاشی، سیاسی اور خارجہ پالیسی کے مسائل کا حل ’صرف پارلیمنٹ‘ میں ہے۔

’ناقص پالیسی‘

سیاسی تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بہت سے مسائل (بشمول کمزور معیشت اور انتہا پسندی) کی جڑ افغانستان کے لیے اس کی ناقص پالیسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان کو اپنی افغان پالیسی کو تبدیل کرنے اور ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر مغرب کے مفادات حاوی ہیں۔

بلوچستان نینشل پارٹی-مینگل کے رہنما ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ایک روڈ میپ بنانے پر زور دیا، انہوں نے سیاسی جماعتوں کے درمیان ’گریںڈ ڈائیلاگ‘ اور پاک-افغان تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی غیر ملکی عناصر کے زیر اثر ہے، پاکستان کو سیاست، اقتصادیات اور سیکورٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ افغانستان متاثر کر رہا ہے۔

اس موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی خطاب کیا۔

شمالی وزیرستان: میر علی میں چیک پوسٹ پر حملہ، 2 افسران، 5 جوان شہید، 6 دہشتگرد ہلاک

پشاور زلمی پی ایس ایل9 سے باہر، اسلام آباد یونائیٹڈ نے فائنل میں جگہ بنا لی

غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملے جاری، مزید 64 فلسطینی شہید