پاکستان

عمران خان سے ملاقات پر کیوں پابندی لگائی؟ سپرنٹنڈنٹ جیل کو جواب جمع کرانے کی ہدایت

سابق وزیر اعظم سے ملاقات نا کروانے پر جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی۔
|

عدالتی حکم کے باوجود بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے جیل میں ملاقات نہ کرانے کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی جہاں عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت جاری کردی۔

مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس کی سابق وزیر اعظم سے ملاقات نا کروانے پر جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی، اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت اور جیل سپرنٹنڈنٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار علامہ ناصر عباس بھی اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اور جیل سپرنٹنڈنٹ ملاقات پر پابندی سے متعلق عدالت کو مطمئن نہ کر پائے جس پر جسٹس ثمن رفعت نے ریمارکس دیے کہ جیل ملاقات پر کیوں پابندی لگائی گئی ہے؟ 12 بجے تک کا وقت ہے، عدالت کو مطمئن کریں، ایک طرف کہتے ہیں درخواست گزار باہر کھڑے تھے دوسری جانب کہتے ہیں کہ تھریٹ تھا، اگر تھریٹ ہوگا تو کیا عدالت بھی بند کردیں گے؟

ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ مجھے کچھ وقت دیں، میں ہدایات لے لوں۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کو 12 بجے تک مطمئن کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور علامہ ناصر عباس کے وکیل ہادی علی چٹھہ روسٹرم پر آگئے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اپنےدلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے پوچھا کہ انٹرا کورٹ اپیل کے بارے عدالت کو آگاہ کیوں نہیں کیا؟

اس پر جسٹس ثمن رفعت نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل میں تو صرف نوٹس ہوا ہے ، آپ نے کہیں بھی نہیں بتایا کہ انٹرا کورٹ اپیل کا کوئی آرڈر موجود ہے ، اس کورٹ میں بس توہین عدالت کی کارروائی پر بات کریں ، صبح میں جو بات ہو رہی تھی وہ آپ دوہرا رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی کی وجہ سے یہ ملاقات نہیں کرا سکے ، دو ہفتے کے لیے اگر عدالت ملتوی کردے تو ملاقات کرا دیں گے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ لیکن پیر کے روز تو تھریٹس کا نوٹیفکیشن تھا ہی نہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے جوب دیا کہ میں تسلیم کر رہا ہوں کہ ہماری طرف سے عدالت کی درست معاونت نہیں ہوئی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اسے لکھ کر دیں گے، اگر جیل سپرنٹنڈنٹ کا جواب مطمئن نا کر سکا تو توہین عدالت کی کارروائی کریں گے ، جسٹس ثمن رفعت امتیاز

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اس عدالت نے عبوری حکم میں 11 مارچ کو ملاقات کا حکم دیا تھا، پیر کے روز ملاقات کا دن نہیں تھا اس لیے ملاقات نہیں کرائی جا سکی۔

اس موقع پر جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ اس معاملے کو بہت غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں، عبوری حکم تھا تو اس کی خلاف ورزی کی جا سکتی تھی؟ عبوری حکم بھی تھا تو اس پر عملدر آمد کیوں نہیں کیا گیا؟ اس عدالت کو یہ نکتہ سمجھائیں کہ عبوری حکم کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے جواب دیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے اور ہم نے درخواست گزار کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

ان کی اس بات پر جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے دریافت کیا کہ کیا آپ عدالتی حکم کے باوجود عدالت کے باہر معاملہ حل کر سکتے ہیں؟ پھر میں سپرنٹنڈنٹ کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہ کروں؟

بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ابھی ملاقات کرانے میں مسئلہ ہے، عدالت نے ایاز شوکت کو جواب تحریری طور پر عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے جواب نے مطمئن نہ کیا تو سپرنٹنڈنٹ جیل کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، درخواست گزار کے مطابق 7گھنٹے انتظار کرانے کے بعد بھی ملاقات نہیں کرائی گئی، اس کیس میں تاخیری حربے استعمال نہیں ہوں گے، یہ ایک سنگین معاملہ ہے لہذا ایک ہفتے میں کمنٹس فائل کریں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 13 مارچ کو مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات نہیں کروانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جسٹس سمن رفعت امتیاز نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو 15 مارچ کے لیے نوٹس بھی جاری کردیا تھا۔

اس موقع پر درخواست گزار علامہ ناصر عباس کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 8 مارچ 2024 کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کے احکامات جاری کیے تھے مگر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے جان بوجھ کر حکم عدولی کرتے ہوئے ملاقات نہیں کروائی لہذا سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

یاد رہے کہ 12 مارچ کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کو دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے خدشے پر بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر 2 ہفتے کے لیے پابندی عائد کردی گئی تھی۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ انٹیلیجنس اطلاعات کی روشنی میں محکمہ داخلہ پنجاب نے اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سمیت تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پرپابندی کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے جیل میں سرچ آپریشن بھی کیا جائے گا، محکمہ داخلہ پنجاب نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب کو پابندی کا مراسلہ بھی جاری کردیا ہے۔

مراسلے کے مطابق ملاقات پرپابندی کا اطلاق بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت تمام قیدیوں پر ہوگا۔

فلسطین کا روشن نقشہ: برج الخلیفہ پر آسمانی بجلی کے مناظر

پاناما ریفرنس: حسن، حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر نیب کو ریکارڈ جمع کرانے کا حکم

برطانیہ نے انتہا پسندی کی متنازع نئی تعریف متعارف کرادی