پاکستان

ایس پی ایس سی جیسے اداروں کو سیاسی مقاصد کیلئے آلودہ کیا جا رہا ہے، سندھ ہائیکورٹ

عوامی دفاتر میں امیدواروں کا انتخاب کرتے وقت میرٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، عدالتی ریمارکس

سندھ ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے مشاہدہ کیا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن (ایس پی ایس سی) جیسے خودمختار اداروں کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے آلودہ کیا جا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو سندھ ہائی کورٹ کے حیدر آباد سرکٹ بینچ کے 22 ٖصفحات پر مبنی فیصلے میں جسٹس امجد علی سہتو نے لکھا کہ ہم بھاری دل کے ساتھ یہ ریکارڈ کرنے پر مجبور ہیں کہ جن اداروں کو خود مختار ہونا ضروری ہے وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر آلودہ ہو رہے ہیں اور عوامی دفاتر میں امیدواروں کا انتخاب کرتے وقت میرٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

جسٹس امجد علی سہتو جسٹس صلاح الدین عباسی کی سربراہی میں اس ڈویژن بینچ کا حصہ تھے جنہوں نے ایس پی ایس سی کی طرف سے میونسپل افسران، ٹاؤن افسر اور اسسٹنٹ اکاؤنٹس افسر کی پوسٹوں کے لیے ہونے والے انٹرویوز کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں کی سماعت کی، یہ انٹرویوز گزشتہ سال منعقد ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم پوری طرح سے واقف ہیں کہ حکومت نے کبھی بھی میرٹ کی بالادستی اور سندھ پبلک سروس کمیشن میں شفاف عمل کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

انٹرویو کے عمل میں مسترد کیے جانے کے بعد عدالت سے رجوع کرنے والے درخواست گزاروں کی نمائندگی ایڈووکیٹ سجاد چانڈیو اور ارشد پٹھان نے، کچھ کامیاب امیدوار بھی اس عمل کا حصہ بن گئے ہیں۔ْ

ایس پی ایس سی کے اہلکار کے خلاف تحقیقات کا حکم

بینچ نے ایس پی ایس سی کے چیئرمین کو کمیشن ممبر رضوان میمن کے خلاف لگائے گئے سنگین الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل بھی حکم جاری کردیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے مشاہدے کے لیے اس طرح کی ایک تفصیلی رپورٹ اس فیصلے کی تاریخ کے دو ماہ کے اندر پیش کی جائے گی اور اس رپورٹ میں درخواست گزاروں اور رضوان میمن سمیت فریقین کی شنوائی کر کے تمام مسائل اور جوابات کو دیکھا جائے گا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم ایس پی ایس سی کی جانب سے مختلف عوامی عہدوں کے لیے امیدواروں کے انتخاب یا ان کے جانچ پڑتال کے شفاف عمل پر کسی سیاسی وجہ سے سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور اس طرح کے نقطہ نظر کو ختم کرنے کے لیے ہم درخواستوں کو نمٹانے کے پابند ہیں۔

فیصلے میں مزید بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار اور دیگر امیدوار ایس پی ایس سی (رکروٹمنٹ مینجمنٹ) ریگولیشنز 2023 کے ضابطہ نمبر 161 کے تحت ایس پی ایس سی کے چیئرمین کے سامنے اپیل دائر کر سکتے ہیں، جو 45 دنوں میں قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے اور دیے گئے پتے اور ویب سائٹ کے ذریعے نتیجہ سے آگاہ کریں گے۔

بینچ نے مشاہدہ کیا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی انٹرویو کرنے والی کمیٹی خودمختار نہیں تھی اور کمیٹی کے ممبران کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے امیدواروں یا کسی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر لوگوں کو تقرری کرنے کے لیے متاثر تھے۔

بینچ نے فیصلہ دیا کہ ہم مستقبل کے لیے کہ حکم دیتے ہیں کہ کمیٹی کا کوئی بھی وہ ممبر انٹرویو یا وائیوا کا حصہ نہیں ہوگا جس کے امیدوار کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق ہو اور چیئرمین اس بات کو سختی سے یقینی بنائیں گے۔

انٹرویو اور وائیوا کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کا حکم

بینچ نے حکم دیا کہ بی ایس-16 اور اس کے آگے کے عہدوں کے امیدواروں کے انٹرویوز اور وائیوا کرتے وقت امیدواروں کی تصاویر کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی اور مجوزہ ویڈیو میں ممبران کی انٹرویو کمیٹی نظر آئے گی۔

بینچ نے حکم دیا کہ انٹرویو کے اختتام پر ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کا بیان بغیر ترمیم کے ریکارڈ کیا جائے گا اور اس طرح کے آڈیو اور ویڈیو کو کم از کم 3 سال تک محفوظ رکھا جائے گا جب تک کہ عدالت کی طرف سے ایس پی ایس سی کی محفوظ تحویل میں توسیع نہ کی جائے۔

عدالت نے مزید کہا کہ ایسی آڈیو اور ویڈیو غائب ہونے کی صورت میں چیئرمین اور سیکریٹری ایس پی ایس سی ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں گے اور انہیں اپنی ناکامی کی وجہ سے نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ایس پی ایس سی کی طرف سے کرائے گئے امیدواروں کے تحریری امتحان کے تمام نتائج امیدواروں کے نام اور ان کے نمبر دکھا کر اس کی ویب سائٹ پر ظاہر کیے جائیں گے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے کئے گئے امیدواروں کے انٹرویو، وائیوا کے تمام نتائج ویب سائٹ پر ان کے نام، والد کے نام، انٹرویو اور وائیوا میں حاصل کردہ نمبرات بشمول تحریری امتحان کے حتمی نتیجے کے ساتھ دکھائے جائیں گے۔

بینچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں نے اپنی اپیل میں کامیاب امیدواروں کو فریق بنائے بغیر ایس پی ایس سی کے عمل پر سوالات اٹھائے ہیں ، یقینی طور پر درخواست گزار تحریری امتحانات میں حاضر ہوئے اور کامیاب ہوگئے تاہم، وہ انٹرویو، وائیوا میں ناکام رہے جو کہ سبجیکٹ پوسٹوں پر تقرری سے قبل ایک شرط تھی۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ جب ایس پی ایس سی سیکریٹری کو کمیشن اور انٹرویو کمیٹیوں کے خلاف سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے پاس پیش کرنے کے لیے شاید ہی کوئی معقول وضاحت تھی، انہوں نے بینچ کو بتایا کہ انٹرویوز کی کوئی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ دستیاب نہیں ہے۔

بینچ نے درخواست گزاروں کے وکیل کی ایس پی ایس سی کے پورے عمل کو کالعدم قرار دینے سے اتفاق نہیں کیا۔

انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ اور مختلف سرکٹ کورٹس میں دیے گئے فیصلوں کا حوالہ دیا، جس میں متاثرہ افراد کو ایس پی ایس سی کے سامنے اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

بینچ نے وکیل کے ساتھ اتفاق کیا کہ ایس پی ایس سی کے ذریعہ عوامی عہدے پر تقرری اقربا پروری یا بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کیے بغیر میرٹ پر کی جانی چاہیے اور نظام کو غیر سیاسی کیا جانا چاہیے تاکہ مستحق امیدواروں کو نقصان نہ پہنچے۔

ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری، 161 نمبر پر آگیا

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت برقرار رہنے کا امکان

چیئرمین ارسا کی ’یکطرفہ‘ تعیناتی سے وفاق، صوبوں کے درمیان تناؤ کا خدشہ