راجا پرویز اشرف و دیگر کیخلاف رینٹل پاور کیس سے متعلق ایک ریفرنس پر 29 اپریل کو دلائل طلب
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی راجا پرویز اشرف و دیگر کے خلاف رینٹل پاور پراجیکٹ کے 5 ریفرنسز میں سے ایک ریفرنس پر 29 اپریل کو دلائل طلب کرلیے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے مقدمے کی سماعت کی، دوران سماعت پراسیکیوٹر خواجہ منظور لون نے بتایا کہ ایک ریفرنس میں ابھی تک چارج فریم نہیں ہوسکا جبکہ ایک اور ریفرنس میں چارج فریم ہوچکا ہے اور شواہد کی حد تک پہنچ گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ رینٹل پاور پراجیکٹ کے ایک ریفرنس میں ابھی تک 4 گواہان کے بیانات قلمبند ہوئے ہیں۔
احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر گواہان کو عدالت بلائیں اور جن گواہان کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں ان پر جرح کریں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔
پس منظر
واضح رہے کہ راجا پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان پر قومی خزانے کو 75 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ رقم ٹھیکیدار کو پروسیسنگ فیس کے طور پر ادا کی گئی تھی یہاں تک کہ اس منصوبے کے لیے مشینری اور آلات کو منتقل تک نہیں کیا گیا تھا۔
یہ بات یاد رہے کہ سندھ کے علاقے نوڈیرو میں قائم رینٹل پاور پروجیکٹ کا معاہدہ 4 مارچ 2010 کو کیا گیا تھا۔
راجا پرویز اشرف جو اس وقت وفاقی وزیر پانی و بجلی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، انہوں نے اس منصوبے کی منظوری دیت تھی جسے بعد ازاں نیب تحقیقات میں ’ناقابل عمل اور غیر مطلوب‘ قرار دیا گیا تھا۔
وزارت پانی و بجلی نے اس منصوبے کی مجموعی لاگت 4 کروڑ 77 لاکھ 60 ہزار ڈالر بتائی تھی۔
واضح رہے کہ نیب نے 2013 میں نوڈیرو۔ ٹو ریفرنس دائر کیا تھا، ریفرنس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ راجا پرویز اشرف اور پیپکو عہدیداروں نے گڈو پاور پلانٹ سے مشینری کو نوڈیرو ٹو میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور انہوں نے قومی خزانے سے 75 لاکھ روپے سامان کو نئی سائٹ پر منتقل ہونے سے قبل ہی پروسیسنگ فیس کے طور پر ادا کیے تھے۔
آر پی پی اسکیم میں 9 اداروں پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے منصوبوں کو چلانے کے لیے حکومت کی طرف سے موبلائزیشن ایڈوانس کے طور پر 22 ارب روپے سے زیادہ وصول کیے تاہم ان میں سے بیشتر نے اپنے پلانٹ نہیں لگائے اور ان میں سے کچھ نے تاخیر سے کچھ پلانٹس لگائے تھے۔
راجا پرویز اشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے 2008 میں وفاقی وزیر پانی و بجلی کی حیثیت سے آر پی پی معاہدے میں کک بیکس اور کمیشن وصول کیا تھا۔
یہ مقدمات گڈو، نوڈیرو، سمندری، کارکے، گلف، ریشماں اور ستیانہ آر پی پیز سے متعلق ہیں۔