پاکستان

لاہور ہائیکورٹ نے نئے الزامات کی بنیاد پر ضمانت یافتہ ملزمان کی دوبارہ گرفتاری روک دی

اِس طرز عمل کو یونہی چھوڑ دینے کی روش ایسے نظام میں ڈھل جائے گی جہاں استغاثہ کی صوابدید سے افراد کی آزادیوں کو سلب کیا جاتا ہے، جسٹس علی ضیا باجوہ

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایک ہی کیس میں ضمانت پر رہا ملزم کو محض تفتیشی ایجنسی کی طرف سے لگائے گئے نئے الزام کی بنیاد پر دوبارہ گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ پولیس کو پہلے سے موجودہ ضمانت کی منسوخی کا مطالبہ کیے بغیر مقدمے میں محض نئے جرائم کا اضافہ کر کے پہلے ہی ضمانت پانے والے ملزم کو گرفتار کرنے کی اجازت دینا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عدالتی احکامات کو روکنے کا غیر محدود اختیار دے گا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ اِس طرز عمل کو یونہی چھوڑ دینے کی روش ایسے نظام میں ڈھل جائے گی جہاں استغاثہ کی صوابدید سے افراد کی آزادیوں کو سلب کیا جاتا ہے۔

یہ فیصلہ پنجاب پولیس رولز 1934 کے رول 26.21 (6) کا اعادہ کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی پولیس افسر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ایسے ملزم کو دوبارہ گرفتار کر سکے جسے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 497 کے تحت ضمانت پر رہا کیا گیا ہو۔

جب دوبارہ گرفتاری ضروری سمجھی جائے تو پولیس ضابطے کے حساب سےضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 497(5) کے مطابق ضمانت کی منسوخی اور وارنٹ جاری کرنے کے لیے ایک مجاز عدالت میں درخواست دے گی۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے حکومتی لا افسر کی دلیل کو مسترد کر دیا کہ رول 26.21 (6) صرف ان مقدمات سے متعلق ہے جہاں ملزم کو گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے نہ کہ گرفتاری سے پہلے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ لا افسر کی جانب سے اٹھایا گیا اعتراض انتہائی غلط فہمی پر مبنی ہے، جوکہ اس قاون کی اصل روح اور بنیادی مقصد کو سمجھے بغیر سطحی طور پر اس کو پڑھنے سے پیدا ہوا ہے۔

جج نے بتایا کہ حکومت کی دلیل انصاف اور آزادی کے ان بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتی ہے جن کی حفاظت پولیس کرتی ہے۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے برقرار رکھا کہ قاعدہ کا مقصد ایک ایسے ملزم کی آزادی کا تحفظ ہے جسے ضمانت کے وقتی مرحلے سے قطع نظر یعنی گرفتاری سے پہلے یا بعد میں ضمانت کا اہل سمجھا گیا ہو۔

جج نے واضح کیا کہ کسی ملزم کو ضمانت کی منسوخی کے بغیر ضمانت پر دوبارہ گرفتار نہ کرنے کا اصول انصاف پسندی، پیشین گوئی اور عدالتی فیصلوں کے احترام کے وسیع تر قانونی اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کے مقدمات تک اس اصول کو توسیع دینا قائم شدہ قانونی اصولوں سے علیحدگی کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ قانون کی موروثی اقدار کی تصدیق کرتا ہے۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے پولیس کی جانب سے اضافی الزامات کی بنیاد پر ضمانت کے بعد اسی کیس میں درخواست گزار کے بیٹے کی دوبارہ گرفتاری کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔

عدالت میں پیش ہوتے ہوئے، ڈپٹی انسپکٹرجنرل (آرگنائزڈ کرائم، لاہور) نے کہا کہ انہوں نے معاملے کا نوٹس لیا ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ عدالت کی جانب سے دی گئی ضمانت کی منسوخی کے لیے درخواست دائر کیے بغیر ملزم کو گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے تھا، انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ مناسب انکوائری کی جائے گی اور مجرم پولیس اہلکاروں کے ساتھ قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے گا۔

ترکیہ اور تاجکستان کی شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد

حکومت کا گلگت بلتستان میں پن بجلی کے وسائل کیلئے ریگولیٹری ادارہ بنانے کا فیصلہ

گلوکار امجد پرویز 79 برس کی عمر میں انتقال کر گئے