پاکستان

پنجاب میں اتحادی جماعتوں کی شمولیت کے بغیر 20 رکنی کابینہ کی تشکیل کا امکان

مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور آئی پی پی سے بھی بات چیت کی، جنہیں دوسرے مرحلے میں کابینہ میں وزارتیں ملنے کا امکان ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی حلف برداری کے بعد شریف کیمپ میں صوبائی کابینہ کی تشکیل پر مشاورت شروع ہو گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں رواں ہفتے 20 رکنی کابینہ کی تشکیل کا امکان ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی اتحادی جماعتوں پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) سے بھی بات چیت کی، جنہیں دوسرے مرحلے میں کابینہ میں وزارتیں ملنے کا امکان ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ، پرویز رشید اور مریم اورنگزیب کو صوبائی کابینہ میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔

رانا ثنا اللہ اور پرویز رشید کو وزیراعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی یا مشیر کے طور پر کابینہ میں شامل کیے جانے کا امکان ہے کیونکہ وہ پنجاب اسمبلی کے رکن نہیں ہیں۔

سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے قریبی سمجھے جانے والے رانا ثنا اللہ کو صوبائی وزیرداخلہ و قانون کے من پسند قلمدان ملنے کا امکان ہے، وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں 2013 سے 2018 تک صوبائی وزیر قانون رہ چکے ہیں۔

بعد ازاں انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیر اعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد مرکز میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کے 16 ماہ کے دور میں وفاقی وزیرداخلہ کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔

رانا ثنا اللہ نے اپنے آبائی شہر فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے خلاف قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا جس میں وہ ہار گئے تھے۔

شریف برادران کے ایک اور معتمد اور سابق سینیٹر پرویز رشید کو کون سا قلمدان دیا جائے گا، اس بارے میں ابھی تک کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔

پرویز رشید پیر کو مریم نواز کے حلف اٹھانے کے بعد سے ہر اس انتظامی اجلاس میں شریک رہے ہیں جس کی صدارت مریم نواز نے کی ہے۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ شریف خاندان پرویز رشید کو واپس سینیٹ بھیج سکتا ہے تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ نواز شریف کریں گے۔

پارٹی ذرائع نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ رانا ثنا اللہ اور پرویز رشید کے درمان تعلقات اچھے نہیں ہیں، اور اگر نواز شریف انہیں اپنی بیٹی کی معاونت کے لیے پنجاب میں تعینات کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں اپنی انا کو پسِ پشت ڈالنا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی رہنما عظمیٰ بخاری کو وزارت اطلاعات کا قلمدان دیا جا رہا ہے جبکہ مریم اورنگزیب (جنہیں مرکز سے وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونت کے لیے پنجاب لایا گیا ہے) کو بھی ایک اہم وزارت ملے گی، دونوں کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں شامل کیا گیا۔

کابینہ میں ممکنہ طور پر شامل ہونے والے دیگر ناموں میں بلال یٰسین (نواز شریف کے رشتہ دار)، فیصل ایوب کھوکھر (صدر مسلم لیگ ن لاہور سیف الملوک کھوکھر کے بیٹے)، ذکیہ شاہنواز، مجتبیٰ شجاع الرحمٰن، منشا اللہ بٹ، خضر حسین مزاری، عاشق کرمانی، احمد خان لغاری، شیر علی گورچانی، راحیلہ خادم حسین اور سبطین بخاری شامل ہیں۔

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور آئی پی پی کے اراکینِ صوبائی اسمبلی کو بعد میں کابینہ میں شامل کیا جائے گا، تاہم یہ امکان ہے کہ انہیں کوئی اہم وزارت نہیں ملے گی۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا سول سیکرٹریٹ کا دورہ

دریں اثنا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سول سیکرٹریٹ لاہور میں صوبائی بیوروکریسی سے ملاقات کی جہاں انہیں سیکرٹریز نے اپنے محکموں کی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے ’میرٹ کی خلاف ورزی‘ نہ ہونے کا عزم کیا، انہوں نے اسٹرکچرل اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری محکموں میں سیاسی بھرتیاں نہیں ہوں گی۔

انہوں نے صوبے میں مستحق افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ایک اجلاس کی صدارت بھی کی اور متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ وہ سڑکوں کی مرمت اور بحالی کا کام شروع کریں۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی ہیڈ کوارٹر کا بھی دورہ کیا اور 31 دسمبر تک تمام اضلاع میں اسی طرح کے منصوبے شروع کرنے کا حکم دیا۔

اتحادی جماعتیں آج حکومت سازی کے معاملات کو حتمی شکل دیں گی

حسن علی کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش

امریکا پرائمری انتخابات، بائیڈن کو اسرائیل-غزہ جنگ پر مخالفت کا سامنا