نقطہ نظر

پاکستان میں ’ایکس‘ کس نے اور کیسے بند کیا ہے؟

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس کو کس نے بند کیا؟ اس سوال کے جواب سے کئی زیادہ سنگین حکام بالا کی اس معاملے پر خاموشی ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس ( ٹوئٹر) کی غیر رسمی بندش کو 11 دن ہوچکے ہیں جس نے انٹرنیٹ صارفین کے معمولات زندگی کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔

نہ صرف وہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے سے محروم ہیں بلکہ وہ صارفین جو صبح اٹھ کر ٹریفک کی معلومات لینے میں ایکس کی مدد لینے کے عادی تھے، انہیں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر ہزاروں نہیں تو سیکڑوں صارفین ایکس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وی پی این کی مدد لے رہے ہیں یا پھر وہ ایکس استعمال ہی نہیں کررہے۔

گزشتہ 9 دنوں سے جب بھی کوئی ایکس کی ویب سائٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا موبائل پر ایکس کی ایپلیکیشن کھولتا ہے تو اسے اپنی اسکرین پر ایک ہی پیغام نظر آتا ہے ’کچھ غلط ہے لیکن پریشان نہ ہوں، دوبارہ کوشش کریں‘ اور ساتھ ہی ایک بٹن ہوتا ہے جو صارفین کو کہتا ہے کہ وہ دوبارہ کوشش کریں۔

تو آخر سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ساتھ آخر ایسا کیا ہوا ہے اور سندھ ہائی کورٹ اور دیگر فورمز کی جانب سے ہدایت کے باوجود اس کی سروسز کو مکمل طور پر بحال کیوں نہیں کیا گیا؟

ان سوالات کے جوابات سے کئی زیادہ تشویش ناک حکام بالا کی اس معاملے پر خاموشی ہے۔

حکومت کی خاموشی

17 فروری کو سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چھٹہ نے انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے ’انکشافات‘ کیے اور چیف الیکشن کمیشنر اور چیف جسٹس پر دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔توقع کے مطابق سابق کمشنر کے اس بیان سے تہلکہ مچ گیا۔

پہلے سے گرم سیاسی ماحول میں غیرمتوقع نقصان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کو پہنچا جسے سیاسی جماعتوں کے حامیوں، کارکنان اور صحافیوں کی جانب سے معلومات کے اشتراک (مصدقہ و غیر مصدقہ) کے لیے کلیدی اہمیت حاصل ہے جبکہ یہ رائے عامہ کو بھی تشکیل دے سکتا ہے۔

یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس پلیٹ فارم کو کس نے بند کیا یا کس نے اس کی بندش کی ہدایت دی۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اس حوالے سے کوئی سرکاری ردِعمل نہیں دیا اور گیند وزارت داخلہ کے کورٹ میں پھینک دی۔

گزشتہ ہفتے نگران وزیرِداخلہ گوہر اعجاز نے کہا کہ وہ کسی پابندی کے حوالے سے باخبر نہیں۔ نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی ایکس کی سروسز معطل ہونے کی تردید کی۔ حتیٰ کہ پی ٹی اے نے بھی کندھے اُچکا دیے ہیں لیکن اسے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء کے تحت آن لائن مواد کو بلاک کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

’درمیانی راستے‘ کی بندش

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ کسی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے متعدد طریقے ہیں جن میں آئی پی اور پروٹوکول پر مبنی بلاکنگ، ڈیپ پیکٹ انسپیکشن پر مبنی بلاکنگ، یو آر ایل پر مبنی بلاکنگ، پلیٹ فارم پر مبنی بلاکنگ، یا ڈی این ایس پر مبنی بلاکنگ شامل ہیں۔

دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی رکاوٹوں کے حوالے سے رپورٹ کرنے والے نیٹ بلاکس کے مطابق، پاکستان میں اب تک ایکس کی سروسز کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا گیا۔

اگرچہ اس کی مکمل بندش کے اشارے نہیں لیکن مایوس کُن طور پر وقفے وقفے سے ملنے والی سست رسائی سے صارفین پریشان ہیں۔ نیٹ بلاکس کے مطابق وی پی این کے ذریعے ایکس تک رسائی کو بھی ناکام بنایا جارہا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس گروپ بائٹس فار آل کے ذریعے کیے گئے نیٹ ورک تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پی ٹی اے، صارفین کو ایکس تک رسائی سے روکنے کے لیے شاید ’ایچ ٹی ٹی پی بلاکنگ جیو بلاکنگ تکنیک کا استعمال‘ کررہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان سے ایکس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے صارفین کے کنکشنز، امریکا کی کمپنی اکامائی کے کنٹینٹ ڈیلیوری نیٹ ورک (سی ڈی این) کے ذریعے ختم کیے جا رہے ہیں جو ویب سائٹس کو مواد ترسیل کرنے کی خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس طرح ملک میں ’ایکس تک رسائی کو مؤثر طریقے سے بلاک کیا جارہا ہے‘۔

سی ڈی این سروسز کا تقسیم شدہ نیٹ ورک ہے جوکہ براؤزنگ کو تیز کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک پاکستانی صارف کو تصور کریں جو ایکس تک رسائی کی کوشش کررہا ہے جبکہ ان کا ہوسٹ سرور امریکا میں ہوسکتا ہے۔

ایسے معاملات میں پہلے پاکستان سے درخواست امریکا جاتی ہے اور پھر یہ واپس پاکستان آتی ہیں۔ اس لیے یہ تھوڑا وقت لے سکتا ہے اور ویب سائٹ سُست ہوسکتی ہے۔

اس مسئلے کو سی ڈی این یوں حل کرتا ہے کہ ویب سائٹ کے مواد کا ایک ’کیشڈ‘ (کاپی) ورژن پاکستان کے اندر یا کسی قریبی ملک کے سرورز میں اسٹور کیا جاتا ہے اور اس طرح براؤزنگ تیز ہوتی ہے۔

پالیسی ماہر اور ٹیک صحافی رمشا جہانگیر کہتی ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ نیٹ ورک کو اپنے مواد کا تقریباً ایک تہائی حصہ اصل ویب سائٹ سے لانا چاہیے لیکن کنکشن کا ایک بڑا حصہ صارف اور پلیٹ فارم کے درمیان نہیں بلکہ صارف اور سی ڈی این کے درمیان ہوتا ہے جوکہ مواد کے دو تہائی حصے کو سروسز فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے‘۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ ہم یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ پی ٹی اے کس طریقہ کار کو استعمال کررہا ہے، ماضی میں سی ڈی این کی سطح پر مواد کو بلاک کرنے کی کوشش کی‘۔

جولائی 2020ء میں پی ٹی اے نے انٹرنیٹ آپریٹرز کو خبردار کیا کہ وہ سی ڈی اینز کے ذریعے پیش کیے جانے والے ’غیر قانونی‘ مواد کو بلاک کریں، بصورتِ دیگر انہیں ’ریگولیٹری ایکشن‘ کا سامنا کرنا ہوگا۔

قومی فلٹریشن سسٹم؟

بائٹس فار آل تجزیہ کے مصنفین میں سے ایک، ہارون بلوچ نے ڈان کو بتایا کہ فیس بک، یوٹیوب، نیٹ فلکس اور ایکس جیسی کمپنیاں پاکستان میں مواد کی ترسیل کے لیے اکامائی سی ڈی این کا استعمال کرتی ہیں۔

’ہم نے اپنے مواد کو اٹلی میں نصب اکامائی سرور کے (آئی پی انٹرنیٹ پروٹوکول) پر ٹریک کیا ہے۔ پاکستان میں ایکس کے مواد کی ترسیل ان سرورز کے ذریعے کی جا رہی ہے‘۔

ان کے تجزیے کی بنیاد پر ہارون بلوچ نے مزید کہا کہ اکامائی کی جانب سے ایکس تک رسائی کو روکنے میں پی ٹی اے کی سہولت کاری کی جانے کا امکان ہے، کیونکہ اکامائی کے سرورز سے آگے ٹریفک نہیں جارہا ہے۔

کسی مخصوص مقام سے مواد کو بلاک کرنے کے اس عمل کو ’ایچ ٹی ٹی پی جیو بلاکنگ‘ کہا جاتا ہے۔

ڈان نے مؤقف لینے کے لیے اکامائی سے رابطہ کیا لیکن تادمِ تحریر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ تجزیہ ایکس ٹریفک کے ایک چھوٹے نمونے کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے اور اس حوالے سے مزید تحقیق سرور کے دیگر مقامات یا بلاک کرنے کے طریقے کی نشاندہی کرسکتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے نے آئی ایس پیز کو کراس کرنے اور مواد کو خود سینسر کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے۔

رمشا جہانگیر نے بتایا کہ دسمبر 2018ء میں حکام نے کینیڈین کمپنی سیڈوین کے ویب منیجمنٹ سسٹم کو آؤٹ سورس کیا۔ رمشا جہانگیر نے ویب منیجمنٹ سسٹم کے معاہدے تک رسائی حاصل کی اور ایک سال بعد اسے رپورٹ کیا۔

تاہم ٹیلی کام آپریٹرز، بین الاقوامی آپریٹرز، لینڈنگ اسٹیشن کے لائسنس یافتہ اور پی ٹی اے کا دستخط کردہ 5 سالہ معاہدہ اب ختم ہوچکا ہے۔

’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کے مطابق پاکستان نے حال ہی میں چین کی مدد سے ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے ایک نیا نیشنل فلٹریشن سسٹم حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’اس حوالے سے بہت سے ٹیسٹ بھی کیے جارہے ہیں۔ ہر روز ایک یا دو گھنٹے کے لیے ایکس قابل رسائی ہوجاتا ہے۔۔۔ میرے خیال میں پی ٹی اے بھی ان سسٹمز کی ٹیسٹنگ کے مرحلے میں ہے‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عبدالمعیز ملک
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔