پاکستان

جیش العدل کے کمانڈر کو پاکستان میں مارے جانے کا ایرانی دعویٰ ’مسترد‘

میڈیا پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے پاکستانی حدود میں کارروائی کے دوران دہشت گرد تنظیم جیش العدل کے ایک کمانڈر کو ہلاک کر دیا ہے۔

پاک فوج نے میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کو مسترد کردیا ہے جہاں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے پاکستانی حدود میں کارروائی کے دوران دہشت گرد تنظیم جیش العدل کے ایک ’کمانڈر‘ کو ہلاک کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

ایک فوجی ذرائع نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا اور کچھ غیر ملکی میڈیا جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلا رہے ہیں کہ ایرانی فورسز نے جیش العدل کے ایک کمانڈر کو پاکستانی سرزمین پر ہلاک کر دیا ہے، پاکستانی سرزمین پر ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا‘۔

ابتدائی طور پر ایرانی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ اس کے سیکیورٹی فورسز نے 23 فروری کو دہشت گرد تنظیم جیش العدل سے وابستہ عسکریت پسند اسماعیل شاہ بخش کو ہلاک کر دیا ہے۔

شاہ بخش کو کہاں مارا گیا اگرچہ اس بارے میں کچھ ایرانی رپورٹس واضح نہیں تھیں تاہم تہران ٹائمز نے واضح طور پر رپورٹ کیا کہ یہ کارروائی پاکستان میں ہوئی تھی۔

ایک فوجی ذرائع نے بتایا کہ ’غلط بیانیہ‘ پھیلایا جا رہا ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ حالیہ ہلاکت اسمگلر گروپوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران ہوئی ہے جسے انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ’آپریشن مرگ بر سرمچار کی وجہ سے پیدا ہونے والی شرمندگی کو دور کرنے کے لیے مختلف جھوٹے بیانیے گھڑے جا رہے ہیں۔‘

یاد رہے کہ پاکستان نے 18 جنوری کو علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا، یہ حملے پاکستانی حدود میں جیش العدل کی پناہ گاہ پر ایرانی میزائل حملوں کے جواب میں کیے گئے۔

شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس کارروائی کو ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کا نام دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیم جیش العدل کے ’کمانڈر‘ اسماعیل شاہ بخش جنوب مشرقی ایران میں حالیہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے، تہران ٹائمز نے شاہ بخش کی ہلاکت کو ایرانی افواج کی جانب سے ’جدید ترین انٹیلی جنس اور فوجی آپریشن‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

اس دوران پاکستانی اور ایرانی وزرائے خارجہ کے درمیان 23 فروری کو فون پر گفتگو ہوئی، کچھ سفارتی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ یہ گفتگو غیر طے شدہ تھی۔

دفتر خارجہ نے وضاحت کی کہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ نے حالیہ انتخابات پر پاکستان کو مبارکباد دینے اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی خواہش کا اعادہ کرنے کے لیے فون کیا تھا۔

اسی دوران ایرانی فریق نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں فریقوں نے دو طرفہ میزائل حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراب صورتحال کے بعد دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے دوران طے پانے والے مفاہمت پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔

اس موقع پر دونوں فریقوں نے سرحدی علاقوں میں رابطہ افسران تعینات کرنے پر اتفاق کیا تھا، اس کے علاوہ سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے موجودہ سیکورٹی معاہدوں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا بھی وعدہ کیا جو دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کا باعث ہے۔

ایرانی فریق کے مطابق امیر عبداللہیان نے ان معاہدوں کے تیز اور کامیاب نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کے درمیان موثر رابطے کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔

فضائی حدود کی خلاف ورزی کا بھرپور جواب، پاکستان کا ایران میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملہ

مغربی ہواؤں کا نیا سلسلہ آج بلوچستان میں داخل ہونے کا امکان

’زمبابر‘ کا نعرہ لگانے والے شائقین پر بابر اعظم غصہ ہوگئے