پاکستان

نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہیں کررہے، خرم دستگیر

نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت شہباز شریف ملک کو زیادہ بہتر طریقے سے آگے لے کر چل سکتے ہیں، رہنما مسلم لیگ(ن)

مسلم لیگ(ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہیں کررہے بلکہ وہ وفاق اور پنجاب میں سیاسی امور کی اور ہماری رہبری کررہے ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’خبر سے خبر‘ میں میزبان نادیہ مرزا سے گفتگو کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہیں کررہے، وہ وفاق اور پنجاب میں سیاسی امور میں مسلم لیگ(ن) اور ہماری رہبری کررہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر میٹنگ بھی کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم سب کی خواہش تھی کہ وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنتے، پہلے بھی 2013 میں انہوں نے ملک میں دہشت گردی، لوڈشیڈنگ اور کراچی میں بدامنی جیسے مسائل سے لڑ کر دکھایا تھا لیکن اب انہوں نے ایک فیصلہ کیا ہے تو ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں ہم دلبرداشتہ نہیں ہوتے اور عوام نے جو بھی فیصلہ دیا ہے اس کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنا ہے ، نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کو حال ہی میں 15 جماعتی حکومت چلانے کا تجربہ ہے اور وہ غالباً اس وقت ملک کو زیادہ بہتر طریقے سے آگے لے کر چل سکتے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ کھل کر تنقید ہم نے برداشت کی ہے، 126 دن کا دھرنا بھی سہا تھا اور ہم معاملے میں بہت تجربہ کار ہیں لیکن اس مرتبہ مجھے توقع ہے کہ اس مرتبہ حلف اٹھانے کے بعد شہباز شریف قوم کو تلخ معاشی حقائق سے آگاہ کریں گے اور اسی بنیاد پر ایوان سے سخت فیصلوں کا مطالبہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے مستقل زرمبادلہ کا بحران ہے، اس سے نمٹنے اور مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے، حکومت کے اخراجات اور قرضوں میں کمی کرنی پڑے گی، تو مجھے توقع ہے کہ شہباز شریف قوم کے سامنے کڑوا سچ رکھیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کو اتحاد سے مائنس کرنے کے سوال پر خرم دستگیر نے کہا کہ مولانا کو خیبر پختونخوا کے نتائج پر تحفظات ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حق میں صوبے میں دھاندلی کی گئی اور حیران کن بات یہ ہے کہ وہ جس کے سبب بیمار ہوئے تھے انہی کے پاس دوا لینے چلے گئے ہیں لیکن یہ ان کا سیاسی فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی قومی اسمبلی میں کم نشستیں ہیں لیکن ہماری خواہش ہے کہ وہ اب بھی حکومت کا حصہ بنیں اور ان کے تجربے کا فائدہ پاکستان اور اس اتحاد کو ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت بننے کے بعد ہم مولانا فضل الرحمٰن کو دعوت دیں گے، اس لیے نہیں کہ ہمیں نمبرز چاہئیں بلکہ اس لیے تاکہ ہم ان کے تجربے سے حکومت کو تقویت بخش سکیں، انہوں نے جذبات میں آ کر فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک جماعت کے ساتھ جا کر بیٹھ رہے ہیں لیکن ہم انہیں پھر دعوت دیں گے کیونکہ وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں کہ اس جماعت سے ملنا فاشزم کو تقویت دینا ہے۔

سنی اتحاد کونسل سے مستقبل میں رابطے کے حوالے سے سوال پر مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ پارلیمان کے وجود میں آنے کے بعد وہاں موجود کسی سے بھی بات کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بننی چاہیے، یہ رکاوٹیں پی ٹی آئی نے خود ڈالی تھیں اور جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ان کے بانی چیئرمین کا اصرار تھا وہ ہم سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ان کے بانی کا مستقل وطیرہ یہ ہے کہ اپنے علاوہ وہ سب کو غدار اور ڈاکو سمجھتے ہیں تو رویہ سنی اتحاد کونسل نے بدلنا ہے۔