پاکستان

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں، سپریم کورٹ

عدالتی فیصلے میں غلطی ہوئی ہے تو اصلاح اہل علم کی ذمے داری ہے، تنقید کی آڑ میں عدلیہ یا ججوں کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے، بیان

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے خلاف جاری مہم کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم(مسلمان کی تعریف) سے انحراف کیا ہے اور مذہب کے خلاف جرائم کے متعلق مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ختم کرنے کے لیے کہا ہے لیکن یہ تاثر بالکل غلط ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مقدمہ بعنوان مبارک احمد ثانی بنام ریاست(فوجداری درخواست نمبر (2023/L-1054 اور 2023/L-1344 ) میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ اس مقدمے کی ایف آئی آر میں مذکور الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے تو ان پر دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932 کی دفعہ 5 کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت ممنوعہ کتب نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6ماہ کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ چونکہ درخواست گزار/ملزم پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزار چکا تھا تو اس لیے اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست گزار/ ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں اور اسلامی احکام بھلا دیے جاتے ہیں، فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اسی سیاق و سباق میں دی گئی ہیں جبکہ فیصلے میں غیرمسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر یہ قید موجود ہے کہ یہ حقوق قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہی دستیاب ہوں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس موضوع پر پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے جس سے موجودہ فیصلے میں کوئی انحراف نہیں کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں میں قرآن مجید کی آیات، خاتم النبینﷺ کی احادیث، خلفائے راشدین کے فیصلوں اور فقہائے کرام کی آرا سے استدلال کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ تمام قوانین کی ایسی تعبیر کی جائے جو احکام اسلام کے مطابق ہو جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 2، دفعہ 31 اور دفعہ 227 اور قانون نفاذ شریعت 1991 کی دفعہ 4 کا تقاضا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول یا کسی آئینی اور قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح اہل علم کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں ۔

سپریم کورٹ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کسی کو نظرثانی سے نہ پہلے روکا ہے نہ ہی اب روکیں گے۔

عدالت نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جا سکتی ہے لیکن نظرثانی کا آئینی راستہ اختیار کیے بغیر تنقید کے نام پر یا اس کی آڑ میں عدلیہ، یا ججوں کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے اور آئین کی دفعہ 19 میں مذکور اظہار رائے کی آزادی کے حق کی حدود کی خلاف ورزی بھی ہے اور اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس ستون کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر آئین نے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمے داری ڈالی ہے۔

یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری کاررروائی کرتےہوئے چیف جسٹس کے خلاف مذموم مہم چلانے والے ملزم کو حراست میں لےلیا تھا۔

راولپنڈی کے رہائشی ملزم عبدالواسع نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کی کردار کشی کی اور دھمکیاں دی تھیں اور آج عدالت نے ملزم کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

عدالت نے ملزم عبدالواسع کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے حوالے کر دیا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ وزارت داخلہ نے ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی سربراہی میں مہم کی روک تھام کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی تھی۔