ٹریل فائیو پر موجود تمام دفاتر وائلڈ لائف کو واپس کیے جائیں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے ٹریل فائیو پر وائلڈ لائف سے سہولت سینٹر واپس لینے کے کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم دیا ہے کہ ٹریل فائیو پر قائم تمام دفاتر وائلڈ لائف بورڈ کو واپس کیے جائیں۔
ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ پہلے سی ڈی اے کی زبانی سن لیتے ہیں اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا یہ ڈیکلیئرڈ نیشنل پارک ہے؟
سی ڈی اے کے وکیل نے جواب دیا جی یہ ڈیکلیئرڈ نیشنل پارک ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کب اسے نیشنل پارک نوٹیفائی کیاگیا؟ وکیل نے بتایا کہ مارگلہ ہلز کو نیشنل پارک 1980 میں نوٹیفائی کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے آخری چیز اللہ نے انسان بنائی ہے اور اسے احسن تقویم کہا، انسان کو خلیفہ فی الارض بنایا گیا ہے، ارض میں جانور جنگلات سب کچھ آتا ہے مگر ہم یہ بھول گئے ہیں، نبی آخر الزماں کو کس نام سے یاد کیا گیا ہے؟ انہیں رحمت اللعالمین کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ وکیل نے جواب دیا اس کا مطلب ہے کہ وہ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا صرف مسلمانوں کے لیے؟ یا صرف انسانوں کے لیے؟ نہیں بلکہ وہ پرندوں اور تمام جہانوں کے لیے رحمت اللعالمین ہیں۔
چیف جسٹس نے پھر دریافت کیا کہ معراج کی رات کیوں تمام انبیا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی یہ بتائیں؟ کسی اور پیغمبر کو کیوں یہ اعزاز نہ دیا گیا؟ جس پر وکلا نے کہا کہ ہمارا علم اس معاملے میں محدود ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں دعوت دی تھی کہ آپ امامت کرائیں، اس کا مطلب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بات ختم ، ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رہنمائی لینی ہے، ہم مذہبی ریاست ہیں، ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سرچشمہ ہدایت ہے، اللہ نے ہمارے پیارے نبی کو حبیب اللہ کا لقب دیا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ٹریل فائیو پر وائلڈ لائف سے سہولت سینٹر واپس لینے کے کیس میں سی ڈی اے کو ٹریل فائیو پر موجود سہولت مرکز وائلڈ لائف کو واپس کرنے اور مارگلہ ہلز میں سی ڈی اے کے ریسٹ ہاؤسز سمیت تمام جائیداد کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم سیتے ہوئے کیس کی سماعت 11 مارچ تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس کے مطابق ٹریل فائیو پر پبلک انفارمیشن سینٹر سمیت تمام دفاتر وائلڈ لائف کو واپس کیے جائیں، وائلڈ لائف بورڈ کا دفاتر سے اٹھایا گیا سامان بھی واپس کیا جائے، نیشنل پارک میں آتشزدگی کا خطرہ رہتا ہے، وائلڈ لائف بورڈ خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنا سامان واپس لگائے۔
حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ بغیر کسی نوٹس کے وائلڈ لائف سے سی ڈی اے نے جگہیں خالی کرائیں، سی ڈی اے نے وائلڈ لائف کا سامان بھی نکال دیا، شہریوں کے بنیادی حقوق میں باوقار زندگی بھی شامل ہے، سی ڈی اے نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ نامناسب تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ وکیل سی ڈی اے نے استدعا کی کہ سی ڈی اے کو بھی وہ عمارات شئیر کرنے دی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چیز ایجاد ہو چکی ہے اسے گاڑی کہتے ہیں، آپ سی ڈی اے آفس سے گاڑی پر مارگلہ ہلز جائیں جب ضرورت ہو، وکیل وائلڈ لائف بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے کے پاس ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔
چیف جسٹس نے حکم نامے میں لکھوایا کہ سی ڈی اے کے ریسٹ ہاؤس پبلک کے لیے استعمال ہونے چاہئیں، سی ڈی اے کو نیشنل پارک میں ریسٹ ہاؤسز کے فوٹوگراف فراہم کیے جائیں، سی ڈی اے مارگلہ ہلز میں جو بھی پراپرٹی ہیں انہیں ظاہر کرے، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔