نقطہ نظر

سفرنامہ ہسپانیہ: اسپین کو الوداع۔۔۔ (آخری قسط)

روانگی کے وقت دل اداس ہورہا تھا لیکن اس بات کی خوشی تھی کہ ہم نے اندلس بھی دیکھا اور جدید دور کے اسپین کے بھی مزے لوٹے، یعنی ان سات دنوں کے ہر لمحے سے ہم نے لطف اٹھایا۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آج ہمیں فرہاد ہمت کے شہر بارسلونا سے رخصت ہونا تھا۔ صبح الارم بجتے ہی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ الارم کی آواز سے فرہاد ہمت زمین پر بچھے اپنے بستر سے اُٹھ چکا ہے جبکہ افتخار اور عبداللہ شاہ صاحب بھی نماز کی تیاری کررہے تھے۔ نمازِ فجر کی ادائیگی اور ایک بار پھر بھرپور افغانی ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے فرہاد ہمت سے اس امید کے ساتھ رخصت لی کہ انشااللہ جلد زیادہ دنوں کے لیے یورپ کا چکر لگائیں گے اور انہیں خدمت کا موقع دیں گے۔

کچھ دیر بعد ہم ٹیکسی کے ذریعے بس اسٹیشن پر پہنچ چکے تھے جہاں میڈریڈ جانے کے لیے بس تیار تھی۔ ہم بلاتاخیر اپنا سامان لوڈ کرکے بس میں بُک اپنی سیٹ پر براجمان ہوگئے۔ بارسلونا کو الوادعی سلام کہتے ہوئے کچھ ہی دیر میں ہم میڈریڈ کی جانب رواں دواں تھے۔

بارسلونا سے میڈریڈ کا فاصلہ تقریباً 650 کلومیٹرز ہے۔ میڈریڈ جاتے ہوئے پہلے بحیرہ روم کا خوبصورت ساحل اور پھر دونوں طرف سرسبز باغات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں بھی جگہ جگہ زیتون کے باغات نظر آرہے تھے۔ اسپین دنیا کی 45 فیصد زیتون پیدا کرتا ہے۔ اسپین میں ہر چیز میں زیتوں کا استعمال ہوتا ہے بلکہ یہ ہسپانوی کھانوں کا لازمی جُز تصور کیا جاتا ہے۔ 2018ء میں ایک مہم کے لیے 17 لاکھ 70 ہزار ٹن زیتون کا تیل پیدا کرکے اسپین نے ریکارڈ قائم کیا تھا۔

یہاں زیتون کی سیکڑوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ اسپین میں زیتون کی اہمیت اجاگر کرنے اور پوری دنیا کی توجہ اپنے زیتون کی مصنوعات کی جانب مبذول کرنے کے لیے میلے کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔

بارسلونا سے نکلے ہوئے ہمیں ایک گھنٹہ ہوچکا تھا اور اس وقت ہم میڈریڈ اور بارسلونا کے درمیان سب سے مشہور شہر سالو ’SALOU‘ سے گزر رہے تھے۔ یہ شمال مشرقی شہر ایک مشہور سیاحتی پوائنٹ ہے جہاں ساحل سمندر پر واٹر اسپورٹس کی سرگرمیاں، مشہورِ زمانہ غاریں اور سیاحوں کے قیام وطعام کی تمام تر سہولیات موجود ہیں۔ سالو ’زارگوزا‘ صوبے کا ایک خوبصورت ٹاؤن ہے جس کے قریب ترین ’زاراگوزا‘ (Zaragoza) شہر واقع ہے جو اپنے صوبے کا دارالحکومت بھی ہے۔

بارسلونا سے تقریباً ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر واقع یہ شہر مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ اس شہر کو عربی میں سرقطہ کہا جاتا تھا اور یہ تقریباً ایک صدی تک قائم رہنے والی مسلم ریاست ’طائفہ سرقطہ‘ کا صدر مقام تھا اور سقوطِ قرطبہ سے قبل ہی یہ مسلمانوں کی سلطنت سے الگ ہوگیا تھا۔

اس شہر میں ہماری گاڑی کچھ دیر کے لیے رکی۔ بس ٹرمینل پر کچھ کھانے پینے کا موقع دیا گیا اور گاڑی ایک بار پھر اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔ شہر سے نکلتے ہی باغات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی کافی دیر تک ہمارے ساتھ چلتا رہا اور پھر سیٹجس (Sitges) نامی چھوٹا ٹاؤن اور تاراگونا (Tarragona) شہر گزرا۔ بعدازاں الکالا ڈی ہینریز (Alcala de Henares)، سوریا (Soria)، لیڈا (Lleida) اور ریوس (Reus) شہر بھی میڈریڈ جاتے ہوئے راستے میں ہمیں نظر آئے۔

کچھ ہی دیر میں سنگلاخ پہاڑ اور سبزے سے خالی میدان میڈریڈ شہر قریب ہونے کی نشاندہی کررہے تھے۔ دوپہر دو بجے کے قریب ہم میڈریڈ شہر پہنچ چکے تھے۔ اس دفعہ ہم نے پاکستانی ریسٹورنٹس کے لیے مشہور اسٹریٹ، ’کالے ڈی پیلار‘ (Calle de Pilar) میں اپارٹمنٹ بک کیا تھا۔ بس ٹرمینل سے ہم نے ٹیکسی لی اور سیدھا اپنے اپارٹمنٹ کے پتے پر پہنچ گئے۔ اپارٹمنٹ کا مالک موجود نہیں تھا اس لیے اپارٹمنٹ کی چابی لینے کے لیے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔

نماز پڑھنے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد ہم قریب واقع پاکستانی ریسٹورنٹ پہنچ گئے۔ یہ بریانی سینٹر کے نام سے اس گلی میں پاکستانی کھانوں کا واحد ریسٹورنٹ تھا جس کے مالک پنجاب کے علاقے جہلم سے تعلق رکھنے والے راشد محمود تھے۔ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہی مالک نے ہمارا بھرپور استقبال کیا۔ عبداللہ شاہ صاحب نے ان سے ہوٹل کے اسپیشل پکوان پوچھا جس کے بعد مٹن کڑاہی اور دال کا آرڈر دیا گیا۔ اس دوران راشد محمود صاحب سے گپ شپ بھی ہوئی۔

گفتگو کے دوران راشد محمود نے کہا کہ ’میڈریڈ میں بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں اور یہاں ان کا کاروبار پاکستانیوں اور بھارتی کمیونٹی کی وجہ سے ہی چلتا ہے۔ اگر آپ لوگوں کے پاس وقت ہوتا تو میڈریڈ شہر کے بہت سے سیاحتی مقامات میں آپ کو خود دکھاتا لیکن چونکہ آپ لوگوں کی واپسی کل صبح ہے اس لیے اگر صبح ممکن ہوسکے تو پلازا دی میئر میڈریڈ اور اس کے اردگرد کے مقامات ضرور دیکھنے جائیے گا‘۔

گفتگو کے دوران ہی ہمارا کھانا تیار ہوچکا تھا۔ کھانا اتنا لذیذ تھا کہ ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ ہم میڈریڈ میں ہیں بلکہ لگ رہا تھا جیسے ہم لاہور کے کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے ہوں۔ کھانا کھانے کے بعد جب بل دینے کی باری آئی تو مالک راشد محمود پیسے لینے سے انکار کررہے تھے۔ خیر بڑی مشکل سے وہ راضی تو ہوگئے لیکن کہا کہ کل ایئرپورٹ جانے سے پہلے دوپہر کا کھانا میری طرف سے ہوگا۔ ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہم واپس اپنے اپارٹمنٹ آگئے۔ تھکاوٹ زیادہ تھی اس لیے مغرب اور عشا کی نماز ادا کرکے سب سے پہلے ہم نے اپنی پیکنگ مکمل کی اور پھر صبح میڈریڈ کے چند سیاحتی مقامات دیکھنے کا پروگرام طے کرکے جلدی سونے پر اکتفا کیا۔

اگلے دن صبح فجر کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر فلیٹ میں ہی آرام کیا اور پھر روایت کے مطابق ناشتہ قریب ہی ایک جنرل اسٹور سے کیا۔ صبح تقریباً 8 بجے کے قریب ہم پیدل ہی گوگل میپ کی مدد سے شہر دیکھنے کے لیے نکل پڑے۔ زیادہ تر مقامات جیسے چرچ، مشہور گلیاں اور چند یادگاریں ہم نے گزرتے ہوئے راستے میں دیکھیں۔ ہماری پہلی منزل میڈریڈ کی مشہور پلازہ دی میئر میڈریڈ (Plaza de Mayor) مارکیٹ تھی۔

یہ تاریخی اور سیاحتی مقام میڈریڈ شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ ہم مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے اپنی رہائشگاہ سے تقریباً 15 منٹ پیدل چل کر یہاں پہنچے۔ اس مقام پر سیاحوں کا رش دیدنی تھا۔ 17ویں صدی میں یہاں آگ لگنے کی وجہ سے اس کی پرانی عمارت پوری طرح تباہ ہوچکی تھی جبکہ اس عمارت کی موجودہ شکل کو 1790ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ پلازہ میں شاپنگ کے لیے دکانیں، بڑے بڑے ریسٹورنٹس اور مقامی حکومت کے دفاتر بھی موجود تھے۔

یہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم میڈریڈ کی سب سے مشہور سیاحتی مقام شاہی محل (Royel Palace) کی جانب روانہ ہوئے جو تقریباً 10 منٹ کی واک پر تھا۔ گوگل میپ کی مدد سے ہم چند گلیوں سے گزرتے ہوئے پلازہ ڈی میڈریڈ کے مرکزی چوراہے پر پہنچ چکے تھے جہاں میڈریڈ کی شان سمجھی جانے والے شاہی محل کی عالی شان عمارت موجود تھی۔ یہ اپنے شاندار فنِ تعمیر کی وجہ سے ایک شاہ کار ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

آج شاہی محل جس جگہ موجود ہے وہاں قدیم زمانے میں ایک قلعہ ہوا کرتا تھا جسے 18ویں صدی میں لگنے والی آگ کے باعث نقصان پہنچا تھا۔ بادشاہ فلپ پنجم نے قلعے کی جگہ اگلے ہی برس شاہی محل کی تعمیر شروع کی جسے مکمل ہونے میں 20 سال سے زائد کا عرصہ لگا اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہ سب سے پہلے بادشاہ کارلوس سوئم کا مسکن بنا۔ اسے یورپ کے سب سے بڑے شاہی محل کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اس محل میں اب اسپین کے شاہی خاندان کا کوئی فرد نہیں رہتا بلکہ وہ کسی اور محل میں منتقل ہوچکے ہیں۔ اب اس محل کے دروازے سیاحوں کے لیے کھلے ہیں جبکہ عوامی تفریح اور سرکاری تقریبات کے لیے بھی اس محل کو استعمال کیا جاتا ہے۔

محل کا داخلہ ٹکٹ 10 یورو کا تھا جس کے لیے سیاحوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ 14 لاکھ 50 ہزار مربع فٹ رقبے پر پھیلے اس محل میں کُل 3400 کمرے ہیں۔ اتنے وسیع رقبے پر بنے اس محل کو دیکھنے کے لیے پورا دن چاہیے لیکن ہمارے پاس وقت کم تھا۔

کچھ دیر باہر سے ہی محل کے کچھ حصوں کا نظارہ کرنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ تزئین و آرائش انتہائی اعلیٰ درجے کی تھی۔ درودیوار پر دل فریب نقش و نگار اور جابجا شیروں کے مجسمے نصب تھے جو شاہی محل کے اندرونی مناظر کو انتہائی دل کش بنارہے تھے۔ شاہی محل کا بیرونی حصہ بھی انتہائی خوبصورت تھا۔ عظیم الشان محل کے اردگرد باغات ہسپانوی طرزِ تعمیر کے شاہ کار ہیں۔ سرسبز باغات کے درمیان ڈھلان سے اوپر اٹھتا ہوا یہ محل مکمل طور پر گرینائٹ اور سفید کالمینر پتھر سے بنایا گیا ہے جبکہ باغات میں جگہ جگہ ہسپانوی بادشاہوں کے مجسمے بھی موجود ہیں۔

شاہی محل کی فوٹوگرافی کرنے کے بعد ہم واپس اپنے اپارٹمنٹ آگئے۔ راستے میں بھی کچھ پرانے چرچ اور یادگاروں سے ہم نے اپنی نظروں کو خیرہ کیا۔ حسبِ وعدہ ہم نے دوپہر کا کھانا راشد محمود صاحب کے ریسٹورنٹ میں کھایا جس کے بعد اپارٹمنٹ سے سامان لےکر ہم ٹیکسی میں سوار ہوئے اور ایئرپورٹ کی راہ لی۔

ہم دن کے تین بجے ایئرپورٹ پہنچے۔ ہماری پرواز میں ابھی تین گھنٹے باقی تھے، امیگریشن کلیئرنس کے بعد ہم انتظارگاہ میں سعودی ایئرلائن کی پرواز کا انتظار کرنے لگے۔

انتظارگاہ پہنچتے ہی دیکھا کہ تھکے ہارے سیاح اپنے سامان اُٹھائے ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ کچھ صوفوں پر اونگھ رہے تھے بعض اپنے فیملی و دوستوں کے لیے ڈیوٹی فری شاپس میں گفٹس لینے میں مصروف تھے۔ ہم پورے سات دن کا سفر کرکے اسی ایئرپورٹ واپس لوٹے تھے جہاں ہم نے اسپین میں لینڈ کیا تھا، تھکن تو ہمیں بھی تھی لیکن ایک خوشگوار مسرت بھی تھی اور خوشی کے ساتھ دل اداس بھی ہورہا تھا۔ ہم نے یورپ کے ایک خوبصورت ملک اسپین کے مشہور شہروں کا دورہ کیا۔ یہاں کی ثقافت، لوگوں اور یادگاروں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ مسلمانوں کی 800 سال رہنے والی عالی شان سلطنت کی یادگاروں کو محبت اور عقیدت سے دیکھا۔ ہم نے اندلس کو بھی دیکھا اور جدید دور کے اسپین کے بھی مزے لوٹے یعنی ان سات دنوں کے ہر لمحے سے ہم نے لطف اٹھایا۔

میڈریڈ ایئرپورٹ پر انتظار کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اسپین (اندلس) کی خوبصورت سرزمین اور یہاں مسلمانوں کے دور کا ایک روشن باب ہم مسلمانوں کی اپنی نااہلی کی وجہ سے ختم ہوا۔ طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر نے اس سرزمین کو فتح کرکے اسلام کے جھنڈے گاڑے اور اسے ایک متحدہ ریاست کی شکل دےکر خلافت کے ساتھ جوڑا لیکن یہاں پر رہنے والے عرب، بربر، یمنی، مضری اور ہسپانیہ کے مقامی مسلمان قبائل کے آپس کے جھگڑوں اور چپقلش نے اس متحدہ ریاست کو پارہ پارہ کرکے 30 سے زائد حصوں میں تقسیم کردیا اور ہر قبیلے نے ان تقسیم شدہ حصوں پر اپنا امیرالمومنین بنا کر بٹھا دیا۔ یوں پہلے سے تاک میں بیٹھے دشمنوں نے ایک ایک کرکے تمام ریاستیں مسلمانوں سے چھیننا شروع کردیں۔

1032ء میں تولوز (Toulouse)، 25 مئی 1085ء کو طلیطہ (Toledo)، 1118ء میں سرقسطہ (Zaragoza)، مسلمان ہار بیٹھے، 1248ء میں اشبیلیہ (Seville) اور بلنیہ سے محروم ہوئے، 1264 میں قدس ہارے اور 2 جنوری 1492ء میں سقوطِ غرناطہ ہوا جس کے بعد مسلمانوں کو یورپ کی سرزمین سے ہمیشہ کے لیے بے سروسامانی میں نکلنا پڑا۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کے اشعار کے ساتھ ہسپانیہ (اسپین) کو الوداع کہتے ہیں۔

ہسپانیہ تو خون مسلمان کا امین ہے
مانند حرم پاک ہے میری نظر میں
پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشان ہیں
خاموش اذانیں ہیں تیری باد سحر میں

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔