نقطہ نظر

بُک ریویو: قیدی

عمر شاہد حامد کا ایک پولیس افسر کے طور پر ذاتی تجربہ پولیس فورس کے اندرونی کام اور سیاسی چالبازیوں کی عکاسی اور ایک ایسے معاشرے کے بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے جہاں بدعنوانی اور انتہا پسندی عام ہے۔

ادب کے کسی شاہکار بالخصوص فکشن کا ترجمہ کرنا ایک آرٹ ہے کیونکہ کبھی کبھی ترجمے میں اصل بات کہیں کھو جاتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ادب کے کسی ٹکڑے کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کی تمام باریکیاں جیسے لہجے اور مکالمے کا اُسی انداز میں ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ ہر زبان کی اپنی اصطلاح، محاورات اور ضرب المثل ہوتے ہیں اور جب ان کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو تحریر کا اصل مزہ کہیں کھو سا جاتا ہے۔

لیکن بعض اوقات، ترجمہ بھی اصل تحریر جتنا بہترین ہوتا ہے۔

انعام ندیم کی جانب سے عمر شاہد حامد کے پہلے ناول ’پرسنر‘ (قیدی) کا اردو ترجمہ بھی اس کی مثال ہے۔ قیدی ایک تھرلر ناول ہے کہ جس میں کراچی پولیس کی کارکردگی کو قریب سے دکھایا گیا ہے۔ اس ترجمے میں وہ سب کچھ ہے جو ایک قاری کسی ترجمے میں پڑھنا چاہتا ہے۔

انعام ندیم جوکہ شاعر اور مترجم ہیں، انہوں نے متعدد کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جن میں دخترِ رومی (میوریل موفروئے کا ناول ’رومیز ڈؤٹر‘)، آئینہ سی زندگی (ربیسنکر بل کا ناول ’اے مررڈ لائف‘) اور دوزخ نامہ (ربیسنکر بل کا ناول ’دوزخ نامہ: کونورسنز ان ہیل‘) وغیرہ شامل ہیں۔

کتاب میں موجود نوٹ میں مترجم لکھتے ہیں کہ جب مکتبہ دانیال کے حوری نورانی نے ان سے ’پرسنر‘ کا ترجمہ کرنے کے لیے رابطہ کیا تو پہلے وہ ہچکچائے کیونکہ وہ پروفیشنل مترجم نہیں ہیں بلکہ وہ صرف اسی تحریر کا ترجمہ کرتے ہیں جو انہیں ادبی اعتبار سے بہت پسند آتی ہے۔ چونکہ انہوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی تھی اس لیے وہ ناول کے موضوع کے حوالے سے لاعلم تھے۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے یہ ناول پڑھا تو انہیں محسوس ہوا کہ وہ اس کے کرداروں اور حالات سے خود کو جوڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ترجمہ کرنے کی ہامی بھر لی۔

ناول ’پرسنر‘ اور اس کا ترجمہ قیدی پڑھنے کے بعد کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ انعام ندیم نے اردو قارئین کے لیے انتہائی شان دار کام کیا ہے۔ وہ لوگ جن کی انگریزی کمزور ہے، اس ترجمے کی وجہ سے وہ اب اس بہترین ناول کو پڑھ سکتے ہیں کیونکہ اس ناول سے بالخصوص کراچی کے لوگ خود کو جوڑ پائیں گے۔ جبکہ وہ لوگ جنہیں دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہے وہ دونوں زبانوں میں اس تحریر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

ترجمے میں نہ صرف اصل باریکیاں بلکہ اس کا ذائقہ بھی شامل کیا گیا ہے جو دکھاتا ہے کہ انعام ندیم کو دونوں زبانوں پر بہترین عبور حاصل ہے۔ ترجمے میں کہانی اسی روانی سے چل رہی ہے جس طرح انگریزی میں، یعنی سنسنی اور ایکشن تھرلر، سب اس ترجمے میں موجود ہے۔

مثال کے طور پر پولیس والوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی مخصوص زبان کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ترجمہ کس حد تک حقیقی تحریر سے قریب ہے۔ وہ لوگ جن کا کسی وجہ سے پولیس سے پالا پڑا ہو تو وہ اس بات پر اتفاق کریں گے کہ ان کے طرز کی کس حد تک درست نمائندگی کی گئی ہے۔ بیانیے میں زبان بھی کتابی نہیں بلکہ وہ ہے جو عام طور پر بولی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ زبان کافی عام ہے جس میں روز مرہ کے محاورات اور فقروں کا استعمال کیا گیا ہے۔

یہاں مترجم کی کاوشوں کو کمتر سمجھنا مقصد نہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ اصل کتاب میں اس زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو عام آدمی روز مرہ بولتے ہیں جیسے انگریزی ورژن میں بھی عام زبان کا استعمال کیا گیا ہے اور وقتاً فوقتاً اردو کے الفاظ بھی شامل کیے گئے ہیں جس نے مترجم کے کام کو کافی حد تک آسان بنا دیا۔

اسے کسی بھی طرح لفظی ترجمہ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کسی کو علم نہ ہوکہ یہ ترجمہ ہے تو وہ سمجھے گا کہ اس ناول کو اصل میں اردو زبان میں ہی لکھا گیا ہے یا پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید اسی انداز میں ترجمہ کیا جانا چاہیے۔ لفظی ترجمہ تو ہر کوئی کرسکتا ہے لیکن بہت کم لوگ ترجمے کی شکل میں حقیقی کہانی کو زندگی دے سکتے ہیں۔

وہ لوگ جنہوں نے یہ ناول انگریزی میں نہیں پڑھا ان کے لیے بتاتے چلیں کہ یہ ناول پولیس اور اس کے بدعنوان افسران کے کام کے طریقہ کار اور ان کے کام میں سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مداخلت کا بھی ذکر کرتا ہے۔

کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب کراچی کے ایک پوش علاقے سے ایک امریکی صحافی کو اغوا کیا جاتا ہے اور اغواکار اعلان کرتے ہیں کہ مغوی کو کرسمس کے موقع پر سرعام پھانسی دے دی جائے گی۔ کوئی سراغ ہاتھ میں نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کو کوئی راہ نہیں ملتی جنہیں بیک وقت حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دباؤ سے نمٹنا پڑتا ہے۔

یہاں انتہائی اہم وقت پر انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک آدمی سینیئر پولیس افسر اکبر خان کے پاس مغوی امریکی کا سراغ لگانے کے ذرائع ہیں لیکن وہ اس وقت جیل میں ہے اور متحدہ محاذ (یو ایف) نامی سیاسی جماعت (جو اب حکومتی اتحادی ہے) پارٹی کے خلاف آپریشن میں اپنے کردار کے لیے اکبر خان کو ناپسند کرتی ہے۔ لیکن اب اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یعنی امریکی کی تلاش کرنے کے لیے اعلیٰ شخصیات بھی اکبر خان کی مدد لینے کے لیے تیار ہیں اور اس کے خلاف تمام الزامات ختم کرنے پر راضی ہیں اور یہاں تک کہ وہ یو ایف کو اس کی رہائی اور عہدے پر بحالی کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اکبر کے پاس یہ سراغ یا معلومات کیسے ہوتی ہیں کہ مغوی امریکی کہاں ہے، کیوں کہ وہ خود جیل میں ہے اور بہ ظاہر جیل میں وہ کسی سے نہیں ملتا۔ کیا پولیس اور انٹیلی جنس ادارے مغوی امریکی کو جہادیوں کے چنگل سے بچا پائیں گے۔یہ تجسس قارئین کو آخر تک سنسنی میں مبتلا رکھے گا۔

یہ ایک ایسا سنسنی خیز ناول ہے جس میں بہت تیزی سے کہانی آگے بڑھتی ہے جو پاکستان میں طاقت کے انتہائی پیچیدہ ڈھانچے اور انصاف کے اخلاقی ابہام کو زندہ کرتی ہے۔ قاری کو اندازہ ہوگا کہ افسران کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات وہ اپنے سینیئرز کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو بھی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے لیے رشوت دینے پر مجبور کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کے مطالبات کو بھی پورا کرتے ہیں کہ وہ سینیئرز کی گُڈ بُکس میں شامل ہوں۔ سب سے بڑھ کر انہیں اپنے عہدوں پر برقرار رہنے کے لیے، حکومت میں تبدیلی کے ساتھ اپنی وفاداریاں اور مؤقف بھی بدلنا ہوتا ہے۔ یہ سب نہ صرف کراچی پولیس بلکہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے تمام شعبہ جات میں ہوتا ہے۔

ایک پولیس افسر کے طور پر عمر شاہد حامد کا ذاتی تجربہ، پولیس فورس کے اندرونی کام اور سیاسی چال بازیوں کی عکاسی اور ایک ایسے معاشرے کے بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے جہاں بدعنوانی اور شدت پسندی عام ہے۔ مصنف نے سیاسی جماعتوں اور کرداروں کے ناموں کو راز میں رکھا ہے لیکن قارئین شناخت کرسکتے ہیں کہ کس کا حوالہ دیا جارہا ہے۔

کراچی کے مقامی یا اس شہر میں وقت گزارنے والے لوگ ناول میں موجود علاقوں سے واقفیت رکھتے ہیں، حتیٰ کہ پولیس کے ساتھ امریکی یا دیگر مجرمان کی کھوج میں وہ گلیوں تک کو پہچان جائیں گے۔


کتاب: قیدی

مصنف: عمر شاہد حمید

مترجم: انعام ندیم

ناشر: مکتبہِ دانیال

صفحات: 400


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

رضوانہ نقوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔