پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اتحادی حکومت کے سیٹ اپ کو حتمی شکل دینے میں تاحال ناکام
آئندہ مخلوط حکومت میں شراکت داری کا فارمولہ وضع کرنے کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مذاکرات تاحال بے نتیجہ رہے، حالانکہ دونوں فریقین نے مذاکرات میں ’اہم پیش رفت‘ کا دعویٰ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں جماعتوں کی رابطہ کمیٹیوں کے درمیان گزشتہ روز ہونے والا تیسرا اجلاس بےنتیجہ رہا اور دونوں نے اختیارات کی تقسیم کے فارمولے کو حتمی شکل دینے کے لیے (کل) پیر کو دوبارہ اجلاس کا فیصلہ کیا۔
اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری کردہ ایک مختصر اعلان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقین کے ساتھ بات چیت میں ’اہم پیش رفت‘ ہوئی ہے، جس میں مضبوط جمہوری حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی اسحٰق ڈار، سردار ایاز صادق، اعظم نذیر تارڑ اور ملک محمد احمد خان نے کی جبکہ پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے والوں میں سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سعید غنی، قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن اور نواب ثنا اللہ زہری شامل تھے۔
قبل ازیں جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں دونوں جماعتوں کے نمائندگان نے پہلے اجلاس میں زیرِ بحث تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت مانگا تھا۔
پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو حکومت سازی اور اگلے وزیراعظم کے انتخاب میں اس شرط پر حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس کے بدلے میں اسے صدرِ مملکت سمیت اہم آئینی عہدے ملیں گے۔
پیپلز پارٹی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے باوجود پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ میں وزارتیں نہیں لے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) آئینی عہدوں پر بات کرنے سے پہلے وزارتوں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کی رائے بدلنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، تاہم پیپلزپارٹی تاحال مؤقف تبدیل کرنے سے انکاری ہے۔
پیپلز پارٹی کے ایک عہدیدار (جو حکومت سازی سے متعلق مذاکرات سے باخبر ہیں) نے بتایا کہ پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) تذبذب کا شکار نظر آتی ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اعلیٰ عہدے مانگے ہیں کیونکہ پارٹی کو خدشہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے زیرِاقتدار پارلیمنٹ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل نہیں کر سکے گی۔
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ بامعنی قانون سازی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا ماضی کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا، شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم حکومت کے دوران بھی مسلم لیگ (ن) نے اتحادیوں کے ساتھ پیشگی مشاورت کے بغیر پارلیمنٹ میں متعدد بار قانون سازی کی۔
پیپلز پارٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب تک پارٹی نے اعلیٰ آئینی اور پارلیمانی عہدوں کے لیے نام فائنل نہیں کیے ہیں، موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کے اس عہدے پر برقرار رہنے کی امید ہے، تاہم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی (جنہوں نے ملتان سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی ہے) بھی اس عہدے کے خواہشمند ہیں۔
یوسف رضا گیلانی اس سے قبل 1993 سے 1996 تک بے نظیر بھٹو کے دور میں پیپلزپارٹی حکومت کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز رہے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے سینیٹ کے انتخابات میں اس نشست کے لیے حمایت کے لیے بھی کہا ہے جوکہ یوسف رضا گیلانی کو اسپیکر قومی اسمبلی کے طور پر نامزد کیے جانے کی صورت میں وہ خالی کردیں گے۔
یوسف رضا گیلانی کا نام چیئرمین سینیٹ کے لیے بھی زیر غور لایا جا سکتا ہے لیکن یہ سب کمیٹیوں کے درمیان جاری مذاکرات کے نتائج پر منحصر ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کی رابطہ کمیٹیوں میں زیر بحث دوسرا معاملہ صوبوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے یہ یقین دہانی چاہتی ہے کہ وہ صوبوں، بالخصوص سندھ کو بغیر کسی رکاوٹ کے ترقیاتی فنڈز جاری کرے گی۔
اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے کہا ہے کہ وہ اسے حکومت سازی میں کسی بھی حمایت کے عوض پنجاب میں ’کچھ جگہ‘ بنانے دے۔
پنجاب میں 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) 137 عام نشستوں کے ساتھ واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری، پارٹی پہلے ہی مریم نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کر چکی ہے۔
پیپلزپارٹی نے صوبائی اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کیں اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے بعد تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری، جس نے 116 نشستیں حاصل کیں۔
ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان بلوچستان میں صوبائی حکومت کے قیام کے معاملے پر بھی بات چیت جاری ہے۔
انتخابی نتائج کے اعتبار سے پیپلزپارٹی بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس کے بعد مسلم لیگ (ن) ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتیں صوبے میں اپنی اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔