بین الاقوامی سطح پر پاکستانی فلمیں نمایاں کیوں نہیں ہوتیں؟
ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ کبھی کراچی میں ایک بڑی فلمی صنعت ہوا کرتی تھی جو لاہور میں منتقل ہوگئی تھی لیکن اب بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی فلمی مرکز موجود نہیں، بس داستانیں رہ گئی ہیں۔ ایک زمانے تک فلمی صنعت کی بدولت اچھی موسیقی ملتی رہی جبکہ اس کے شاعر، گلوکار اور موسیقار اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے لیکن اب وہ فلمی اداکار رہے نہ ہدایتکار و پروڈیوسر۔
کراچی کے 80 فیصد سینما گھر صرف نام کے رہ گئے ہیں۔ کچھ پر تالے لگے ہیں اور کچھ بلڈرز کی نذر ہوچکے ہیں۔ ہم نے اکثر کراچی کے بمبینو اور نشاط سینما میں پرانی بھولی بسری فلمیں لگی دیکھی ہیں۔ اب گنے چنے سینی پلیکس سینماؤں میں فلم بین نظر آتے ہیں، یعنی جدت فلم بین کو باہر لے آتی ہے۔ آج سب سے بڑا کام ہی ناظرین کو ان کے گھروں سے نکال کر سینما گھروں تک لانا ہے۔
ہر ایک یا دو دہائیوں بعد سینما کے انداز بدلتے ہیں۔ شاید پاکستان کی سینما انڈسٹری وقت کی سمت نہیں پہچان سکی اور خطے میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب پی ٹی وی کا ہر نامور ہیرو فلم انڈسٹری میں قدم نہیں رکھتا تھا مگر آج یہ حال ہے کہ فلمی اداکار ٹی وی اسکرین پر بھی نظر آرہے ہیں۔ فلمی صنعت سے وابستہ افراد کو سمجھنا ہوگا کہ آج کے دور میں فلم بینوں کے پاس صرف فلمیں ہی تفریح کا ذریعہ نہیں رہیں بلکہ ویب سیریز نے دنیا ہی بدل دی ہے۔ اس پس منظر میں اگر کوئی فلم، شائقین کو سینما لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہی کامیاب بزنس کرتی ہے۔ بلاشبہ نئے لوگ اور نئے چہرے سامنے آرہے ہیں لیکن یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ دور بدل گیا ہے اس لیے نقالی سے نہیں بلکہ کہانی کار کو نئے خیالات جدید انداز میں پیش کرنے ہوں گے۔
دسمبر 2022ء میں پاکستانی سینما میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ پیش کی گئی جو 100 کروڑ سے زائد کما کر 2023ء کی سب سے کامیاب پاکستانی فلم ثابت ہوئی لیکن مجموعی طور پر 2023ء میں پاکستانی سینما انڈسٹری کا حال اچھا نہیں رہا۔ فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوتی رہیں لیکن کوئی بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرسکی جبکہ عید پر آنے والی ’منی بیک گارنٹی‘ سے کچھ امیدیں تھیں لیکن وہ بھی باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکی۔
گنجل: ایک سماجی فلم
دسمبر 2023ء میں فلم ’گنجل‘ پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جو سوانح عمری (بائیوپِک) ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کہانی بھی تھی جسے کئی بین الاقوامی ایوارڈز ملنے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ گنجل فلم کی ہلچل اس لیے بھی زیادہ سنی گئی کیونکہ یہ چائلڈ لیبر ہیرو اقبال مسیح کی کہانی ہے جنہیں 2022ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغہِ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔
اس فلم کی ہدایت کاری شعیب سلطان نے دی ہے جبکہ اسے نرمل بانو اور علی کاظمی نے قلم بند کیا ہے۔ یہ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی پہلی فیچر فلم ہے اور مصنفین کی بھی یہ پہلی کاوش ہے۔ یعنی گنجل کو ہم ایک نوآموز ٹیم کی اچھی کوشش کہہ سکتے ہیں۔ فلم کی کاسٹنگ پر محنت کی گئی ہے اور منجھے ہوئے فنکاروں کی اداکاری کو سراہا گیا ہے۔ احمد علی اکبر، آمنہ الیاس، سمعیہ ممتاز، ریشم، عمیر رانا اور احمد علی بٹ کی اداکاری نے اس بائیوپک میں جان ڈال دی ہے لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہیں کہیں یہ فلم کم اور ڈراما زیادہ لگ رہی تھی۔
فلم کی پروموشن کے دوران ہماری ملاقات گنجل کی پروڈیوسر نگہت اکبر شاہ سے ہوئی۔ ملاقات کے دوران ہم نے ان سے جاننے کی کوشش کی کہ ان کی دو سال کی محنت کن کن مراحل سے گزری۔ ان کی پہلی 30 منٹ دورانیے کی شارٹ فلم ’دریا کے اس پار‘ تھی جو 2020ء میں پیش کی گئی تھی۔ ہم اس کے بارے میں جانیں گے کہ خاندان پر گزرنے والی حقیقی کہانی کو فلم کی شکل دینا کتنا مشکل عمل ہے۔
نگہت بتاتی ہیں کہ ’ہم نے فلم گنجل کا موضوع منتخب کرنے کے بعد کہانی کے کرداروں پر تحقیق کی۔ ان کے خاندانوں سے ملاقات کی جہاں ہم نے یہ جانا کہ اب بھی بہت سی باتیں میڈیا کے ذریعے سامنے نہیں آئیں، لہٰذا اس موضوع کو چننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ گنجل کا تجربہ اس لیے بھی اچھا رہا کیونکہ یہ پاکستانی ہیرو کی کہانی ہے۔ ہمیں کہانی سناتے ہوئے اس الجھی ہوئی کہانی کو سلجھانا بھی تھا۔ اس حوالے سے ہدایتکار نے بہت اچھا کام کیا ہے‘۔
انہوں نے یہ بھی بتایا ’فلم میں ڈبنگ نہیں کی گئی بلکہ لائیو ساؤنڈ استعمال کی گئی ہیں۔ ایڈیٹنگ، میوزک، کلریئنگ پر بہت خوب کام کیا گیا ہے جبکہ اداکاروں کی کارکردگی بھی شاندار رہی۔ چونکہ یہ ایک پاکستانی صحافی کی کرائم تھرلر کہانی ہے اس لیے میری خواہش تھی کہ یہ پاکستان کی اسٹوری ہے اس کی پہلی اسکرینگ پاکستان میں ہی ہو‘۔
’معاشرے میں مکالمہ ضروری ہے‘
نگہت کی پیدائش گرم چشمہ چترال میں ہوئی۔ وہ فخریہ انداز میں بتاتی ہیں کہ انہیں والدین کی طرف سے تعلیم کی رغبت بھی ملی۔ ان کے پُراعتماد ہونے میں جہاں چترال کی کھلی فضا نے اپنا کردار ادا کیا وہیں گھر میں مکالمے کے ماحول نے بھی انہیں اپنی بات کہنا سکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی سوال کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن سے سوال کرنے کا شوق رہا ہے اور والدین نے انہیں سوچنے اور سوال کرنے پر کبھی نہیں ٹوکا۔
نگہت نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اُس وقت بھی چترال میں وہی رواج تھا کہ لڑکے اہم ہیں، لڑکیوں کی زیادہ پروا نہیں کی جاتی تھی لیکن مجھے ہمیشہ خاندان کے بڑے اور سمجھدار بچے والا رتبہ دیا گیا‘۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اب بھی یہ رواج کسی حد تک موجود ہے لیکن پہلے کے مقابلے میں کچھ کمی آئی ہے۔ خاندان اور علاقے کے دستور کے مطابق نگہت کی شادی انٹر کے بعد ہوگئی اور وہ امریکا منتقل ہوگئیں لیکن جب بچوں اور گھر سے فرصت ملی تو انہوں نے جہاں سے تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوا تھا وہیں سے جوڑا اور آج ان کے پاس ایم ایس کی ڈگری موجود ہے۔
شارٹ فلم: ’دریا کے اس پار‘
نگہت شاہ بتاتی ہیں کہ ’چترال میں باقاعدہ کوئی صنعت نہیں اس لیے یہاں کی مقامی آبادی گلہ بانی اور مویشی پالتی ہے۔ آج کل سفر آسان ہونے کی وجہ سے لوگ سردیوں میں شہروں میں آجاتے ہیں اور گرمیوں میں واپس چلے جاتے ہیں لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں تعلیم کی شرح 70 سے 80 فیصد ہے۔ پاکستانی علاقوں کی طرح ہمارے علاقے کے لوگ بھی مہمان نواز ہیں لیکن 2008ء کے زلزلے کے بعد سے یہاں نوجوانوں میں مسائل پیدا ہورہے تھے، خاص طور پر چترال میں خودکشی کی شرح بڑھتی جارہی تھی۔ اکثر یہ خبریں پہاڑوں میں دب جاتی ہیں اور ملکی اخبارات میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، لہٰذا اس پر بات کرنا انتہائی ضروری تھا بالخصوص جب میرے اپنے خاندان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جو ذہنی دباؤ کے عکاس تھے۔
’2014ء میں، میں نے اپنے گھر اور خاندان میں بات کرنا شروع کی لیکن اس حوالے سے عام لوگوں سے بات کرنا ضروری تھا تاکہ وہ اس سے خوف زدہ نہ ہوں بلکہ مرض اور مریض کو سمجھیں تاکہ بروقت ان افراد کی مدد کی جاسکے۔ ذہنی دباؤ، ذہنی صحت کا مسئلہ ہے جس پر ڈاکٹر سے لازمی رجوع کرنا ضروری ہے، اس حوالے سے لوگوں بالخصوص خواتین کے لیے ورکشاپ کروانی چاہئیں۔
’اس کے بعد سوچا کہ کیوں نہ ہم پبلک سروس پیغام بنائیں لیکن جب ہم نے تحقیق شروع کی تو اندازہ ہوا کہ صرف دس منٹ کے پیغام سے بات پوری نہیں ہوگی۔ تو ہم نے 30 منٹ کی ایک شارٹ فلم بنائی۔ ہم چاہتے تھے کہ علاقے کے لوگ اس اہم مسئلے یعنی ذہنی دباؤ پر بات کریں اور ہم سب مل کر لوگوں کو خودکشی جیسے فعل سے بچائیں۔ ہماری اس فلم کو پاکستان کی سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔ اسے کورونا کے دوران پیش کیا گیا تھا۔
’اس فلم میں ہم نے پاکستان مینٹل ہیلتھ کولیشن کے ساتھ مل کر کام کیا تھا جبکہ آغا خان، شکاگو یونیورسٹیز میں بھی اسے پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کو بین الاقوامی سطح پر کافی کامیابی ملی اور کئی فلمی میلوں میں اسے ایوارڈز ملے جیسے نیویارک فلم فیسٹول میں اسے 3 ایوارڈز ملے، انٹرنیشنل فلم فیسٹیول ترکیہ، ساؤتھ ایشیا فلم فیسٹیول کینیڈا میں بھی اسے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ دو سال بعد ’دریا کے اس پار‘ کو یوٹیوب پر اپلوڈ کردیا گیا۔ نگہت اس بات پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں کہ ذہنی صحت پر اب کھل کر بات کی جانے لگی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستانی فلمیں نمایاں کیوں نہیں ہوتیں؟
نگہت کے خیال میں پاکستانی فلموں کو بین الاقوامی سطح پر مشکلات کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ ’ہمیں پلیٹ فارم ہی نہیں ملتے، میرے پاس دیگر پلیٹ فارمز بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’2023ء میں کانز فلم فیسٹول صرف اس لیے گئی تاکہ فلموں کی مارکیٹنگ کے بارے میں اندازہ ہوسکے۔ وہاں میں نے چیزیں دیکھیں بھی اور سیکھیں بھی لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ وہاں پاکستان کا کوئی اینکلیو ہی نہیں۔ بھارت کا تھا، سعودی عرب کا تھا اور ایران کا بھی لیکن پاکستان کے آرٹ اور فلم انڈسٹری کو دنیا کے سامنے کرنے کے لیے کوئی اینکلیو نہیں تھا۔ آپ خود بتائیں دنیا کو کیسے پتا چلے گا کہ ہم پاکستانی کیسی فلمیں بنا رہے ہیں۔ اگر ہمارے سفارت خانے اپنے فنکاروں اور فلمی صنعت کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے بالخصوص مختلف فلم فیسٹیول میں، تو ایسے ہماری فلمی مارکیٹ بڑھے گی۔ پھر وہ خود پاکستان میں آکر فلم بنائیں گے۔
’اس حوالے سے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ فلمی صنعت کے مشکل اجازت ناموں اور سرمایہ کاری کو آسان بنائیں۔ میں نے اس فلم میں اپنا سارا سرمایہ لگایا ہے لیکن اگلی فلم کے لیے سرمایہ کاری کرنے سے پہلے مجھے سوچنا پڑے گا۔ ہمیں فلم کی پرموشن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اپنی اچھی پہچان بنانے کے لیے ہمیں اپنا کام مزید اچھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ڈرامے ہمشہ سے پسند کیے جاتے ہیں کیونکہ اچھی چیزوں کی سب تعریف کرتے ہیں۔
’پاکستانی سینما میں فلمیں بننی چاہئیں بلکہ زیادہ بننی چاہئیں۔ کم بجٹ، میڈیم اور زیادہ بجٹ والی ہر طرح کی فلمیں بننی چاہئیں کیونکہ اس طرح فلمی صنعت کو فروغ حاصل ہوگا اور اس حوالے سے ہمیں ایک دوسرے کی مدد بھی کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو سینما کی عادت ہوسکے۔ پاکستان میں لوگ سینما جانا بھول چکے ہیں‘۔
نگہت نے اختتامیہ جملوں میں بتایا کہ ’میری کامیابی یہ ہے کہ میں جو چاہتی تھی یعنی جن موضوعات پر کام کرنا چاہتی تھی، ان پر بات کر پائی پھر چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر کی یا پھر بڑے پیمانے پر۔ جب پیرس میں ہم نے گنجل کو پیش کیا تھا تو ایک صحافی نے مجھ سے کہا کہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یورپ میں بھی اس حوالے سے بات کرنے کی ضرورت ہے‘۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔