پاکستان

پی ٹی آئی حکومت کےخلاف تحریک عدم اعتماد جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے کہنے پر لائی گی، فضل الرحمٰن کا دعویٰ

عدم اعتماد سے متعلق جنرل (ر) فیض اور جنرل (ر) باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے کہا گیا کہ آپ نے ایسا کرنا ہے، سربراہ جے یو آئی (ف)

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی تھی۔

نجی چینل ’سما ٹی وی‘ کے پروگرام ’ندیم ملک لائیو‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’حالیہ انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن انتخابی چوری ایسا عمل ہے جس کا گواہ یا شواہد پیش کرنا دشوار ہوتا ہے، پورا الیکشن چوری ہوا ہے، نہ کہنے والی کہانیاں ہیں کہ ان انتخابات میں کیا کچھ ہوا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے انتخابات کو باقاعدہ طور پر مسترد کردیا ہے اور ہم اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔‘

’انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے اور فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، 2018 کے اور حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تمام بڑی جماعتوں نے مؤقف بدلا لیکن ہم وہ واحد جماعت ہیں جو اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اس وقت بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی دھاندلی ہوئی ہے اور جس کا بظاہر فائدہ (ن) لیگ کو ہوا ہے۔‘

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تاثر موجود ہے کہ نواز شریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے، یہ سیٹ انہوں نے رکھنی ہے یا چھوڑنی ہے یہ فیصلہ خود انہوں نے کرنا ہے، یہ جو حکومت نہیں لے رہے شاید یہ بھی اسی وجہ سے ہو۔’

پی ڈی ایم سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’یہ انتخابی یا حکومتی اتحاد نہیں تھا، اس تحریک میں ہم اختلافات کے باوجود اکٹھے چل رہے تھے کیونکہ جو حکمت عملی تیار کی گئی اس سے ہمیں اتفاق نہیں تھا اور یہ ہمارے تمام دوست جانتے ہیں۔

’عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تمام اکابرین اور دوست جانتے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، لیکن میں نے اپنے دوستوں کے لیے اور وحدت کے لیے اپنے مؤقف اور رائے کی قربانی دی تھی، عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی، جنرل (ر) فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا سسٹم کے اندر رہ کر آپ جو کرنا چاہیں ہمیں اعتراض نہیں ہوگا لیکن سسٹم سے باہر جاکر نہیں، میں نے اس سے انکار کردیا تھا لیکن پھر جب پی ٹی آئی کے لوگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی ٹوٹ کر آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس اکثریت ہے۔‘

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ’اگر اس وقت میں عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ مولانا نے عمران خان کو بچا لیا، عدم اعتماد سے متعلق جنرل (ر) فیض اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے کہا گیا کہ آپ نے ایسا کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے۔‘

اتحادی حکومت کو پیش آنے والی معاشی مشکلات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’ان مشکلات کی وجہ سے ہی یہ بطور دلیل کہا جارہا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت ڈیڑھ سال میں ڈلیور نہیں کر سکی اور مہنگائی بڑھتی چلی گئی۔‘

’پی ٹی آئی کے ساتھ دماغ کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسا ہے تو اس کا اثر (ن) لیگ پر پنجاب میں پیپلز پارٹی پر سندھ میں ہونا چاہیے تھا، صرف خیبر پختونخوا کے اندر ہم پر کیوں بم چھوڑا گیا اور ہمیں اس کا کیوں نشانہ بنایا گیا۔‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفد سے ممکنہ ملاقات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’جب بات ہوگی اس کے بعد پتا چلے گا کہ کیا جواب دینا ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ دماغ کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے، اسمبلی میں ہم تحفظات کے ساتھ جارہے ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ یا دیگر عہدوں کے لیے کسی جماعت کی حمایت نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت بنانے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے میں اسے کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا لیکن اگر انہوں نے فیصلہ کیا ہے تو اس کے اچھے برے کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔‘

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوئے ہیں تو 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا اور اس کا مطلب لوگوں نے غداروں کو ووٹ دیے ہیں، ریاستی اداروں کا احترام ہے لیکن وہ سیاست میں کیوں آتے ہیں، ہم ان کو سپورٹ کریں گے وہ جمہوری نظام کو سپورٹ کریں۔‘

’یہ پارلیمان نہیں چلے گا، اسکی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے‘

سربراہ جے یو آئی (ف) نے ایک سوال پر کہا کہ ’عمران خان سے میرا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے، ہمارے درمیان ایسی کوئی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے کہ میں ان کے فلسفے اور حکمت عملی کو سمجھ سکوں کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے بات چیت سے انکار کیوں کیا ہے۔‘

اگلی پارلیمان سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’یہ پارلیمان نہیں چلے گا، اس کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے، پارلیمان میں فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گی، آئندہ پارلیمان پی ٹی آئی والے دور سے زیادہ ہائبرڈ پلس ہوگا، موجودہ پارلیمنٹ کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔‘

’شہباز شریف کسی موقع پر استعفیٰ دینے کو تیار نہیں تھے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’(ن) لیگ نے 66 سیٹوں کے ساتھ ملک بچانے کے لیے حکومت لینے کا اعلان کیا، یہ پارلیمان چلنے والا پارلیمان نہیں ہوگا، سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہوگا اور ملک بحرانوں کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔‘

25 مئی 2022 کو عمران خان کے لانگ مارچ سے متعلق مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’شہباز شریف کسی موقع پر استعفیٰ دینے کو تیار نہیں تھے، شہباز شریف کب استعفیٰ دینا چاہتے تھے میرے علم میں نہیں۔‘

اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں اور ان کی خواہشات پر چلنے کے متعلق انہوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنے کے سلسلے چلتے رہتے ہیں، لیکن کسی کو تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر کہنا چاہیے کہ آپ غلط کر رہے ہیں اور ہم نے ایسا کیا، پی ٹی آئی کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے بنائی اور انہوں نے ہی گرائی۔‘