سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس (ر) مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف 7 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے
سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 7 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرلیے جب کہ مزید 4 گواہوں کے بیانات مل ریکارڈ کیے جائیں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوئے اور سپریم جوڈیشل کونسل کی مزید معاونت سے معذرت کر لی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میرا وکالت نامہ جسٹس نقوی کے جج ہونے تک ہی تھا، ریٹائرڈ ججز کےخلاف کارروائی سے متعلق سپریم کورٹ کا بینچ مقدمہ سن رہا ہے، عزیز صدیقی کیس میں بھی ایسا ہی نکتہ ہے جو الگ بینچ میں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عافیہ شیربانو کیس کے فیصلے کا انتظار کریں گے، شوکت عزیز صدیقی کیس میں فیصلہ محفوظ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کےخلاف گواہان کو بلایا گیا تھا، آج ان کے بیانات ریکارڈ کریں گے، آپ گواہان پر جرح کرنا چاہیں تو آگاہ کر سکتے ہیں۔
پراسیکیوٹر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مجموعی طور پر پانچ آفیشل گواہان کی فہرست پیش کی ہے۔
اس موقع پر پہلے گواہ ملٹری اسٹیٹ آفیسر لاہور کینٹ عبدالغفار ریکارڈ کے ہمراہ کونسل کے سامنے پیش ہوئے، ملٹری اسٹیٹ افسر لاہور کینٹ عبدالغفار نے بیان قلمبند کرانے سے قبل حلف اٹھایا کہ میں جو کہوں گا اپنے ایمان سے سچ کہوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کونسی پراپرٹی کا ریکارڈ ہے گواہ نے کہا کہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کی پراپرٹی نمبر 100 کا ریکارڈ ہے، 1962 میں یہ پراپرٹی محمد افضال کو لیز پر دی گئی، 1967 میں یہ پراپرٹی محمد اسحاق کو ٹرانسفر ہوئی،محمد اسحاق نے پراپرٹی اپنی بیوی نسیمہ وارثی کو گفٹ کردی۔
انہوں نے کہا کہ 2004 میں یہ زمین نسیمہ وارثی کی بیٹی بسمہ وارٹی کو ٹرانسفر ہوئی،بسمہ وارٹی نے اس زمین کو 2 پلاٹس میں تقسیم کیا، بسمہ وارثی کے بعد شوہر چودھری شہباز اور بیٹے حسن شہباز کو یہ پلاٹس ملے، حسن شہباز سے 2022 میں پراپرٹی جسٹس مظاہر نقوی نے 10 کروڑ سے زائد میں خریدی۔
کارروائی کے دوران سپریم جوڈیشل کونسل نے 7 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے جب کہ سپریم جوڈیشل کونسل کل مزید 4 گواہان کے بیانات ریکارڈ کرے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے فیصلوں تک کسی فیصلے پر نہیں پہنچے گی، سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہمظاہر نقوی کی درخواست پر کارروائی پبلک کے لیے اوپن ہے، مظاہر نقوی نے رجسٹرار کو بذریعہ خط مطلع کیا ہے کہ انہوں نے خواجہ حارث سے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ کونسل نے مظاہر نقوی کو اجازت دی ہے کہ وہ کسی بھی گواہ پر جرح کر سکتے ہیں، کونسل کی اوپن کارروائی میں کوئی بھی آ کر گواہ پر جرح کر سکتا ہے، آج کی کارروائی میں کسی نے گواہان پر جرح نہیں کی۔
کونسل نے مزید کارروائی کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی، گواہ نمبر ایک ملٹری اسٹیٹ افسر لاہور کینٹ عبدالغفار نے بیان دیا کہ پراپرٹی کی تقسیم کے بعد ڈاکٹر بسمہ وارثی کے نام 1983 مربع گز زمین تھی، 28 جون 2022 کو 10 کروڑ روپے میں یہ پراپرٹی جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کے نام ٹرانسفر ہوئی۔
دوسرے گواہ کاشف شہزاد کنٹونمنٹ ایگزیکٹو افسر لاہور کینٹ نے زمین پر تعمیرات کا ریکارڈ پیش کیا اور کہا کہ 3 اکتوبر 2022 کو جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی نے تعمیرات کیلئے بلڈنگ پلان کی درخواست دی، ملٹری اسٹیٹ آفیسر نے بلڈنگ پلان کی منظوری دی، تاحال تعمیراتی کام مکمل ہونے کیلئے سرٹیفیکیٹ کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
تیسرے گواہ زمین کی مالیت کے تعین کرنے والی نجی کمپنی کے ڈائریکٹر آصف عزیر نے بیان دیا کہ 25 جون 2022 کو سینٹ جونز پارک پراپرٹی کی قیمت 27 کروڑ روپے تھی،9 جنوری 2024 کو اس پراپرٹی کی قیمت 37 کروڑ روپے ہوچکی تھی۔
چئیرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اس زمین پر کوئی تعمیرات کی گئی ہیں، آصف عزیر نے جواب دیا کہ زمین پر تعمیرات کی گئیں مگر ہمیں داخلے کی اجازت نہیں۔
چوتھے گواہ زمین کی مالیت کے تعین کرنے والی نجی کمپنی ڈائریکٹر کاشف رحمان نے بیان دیا کہ 25 جون 2022 کو 100 سینٹ جونز پارک پراپرٹی کو قمیت 25 کروڑ 90 لاکھ اور 8 جنوری 2024 کو 35 کروڑ 60 لاکھ تھی، کونسل کے احکامات پر پراپرٹی پر تعمیرات کیلئے وہاں موجود افراد نے داخلے کی اجازت نہیں دی۔
چیئرمین جوڈیشل کونسل نے سوال کیا کہ سینٹ جونز پارک کا علاقہ اتنا مہنگا کیوں ہے، گواہ کاشف رحمٰن نے جواب دیا کہ سینٹ جونز پارک لاہور کا پوش علاقہ ہونے کی وجہ سے مہنگا ہے۔
واضح رہے کہ مظاہر نقوی نے 10 جنوری کو استعفیٰ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اسی روز سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کراتے ہوئے خود پر عائد الزامات کی تردید کی تھی جب کہ اس سے ایک روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
پسِ منظر
خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے اس کے وقت کے جج مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں سابق جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔
20 نومبر کو سابق جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔
اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
4 دسمبر کو سابق جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔
6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔
13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔
یاد رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔
اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔