’اس قسم کے کیسز سے تھک چکے ہیں‘، توہین مذہب کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس برہم
توہین مذہب کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس قسم کے کیسز سے تھک چکے ہیں، توہین مذہب کے حساس معاملات کی نگرانی اور تفتیش ایس پی رینک سے کم کا افسر نہیں کرے گا۔
سپریم کورٹ میں توہین مذہب کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
توہین مذہب کیس میں بغیر وارنٹ گھر میں گھس کر گرفتاری کیس میں سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ملزم زبیر صابری کی ضمانت منظور کر لی۔
عدالت نے ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کھ عوض منظور کی۔
اس کےعلاوہ سپریم کورٹ نے بغیر وارنٹ گھر میں گھس کر گرفتاری پر ایس پی اسلام آباد پولیس رخسار مہدی کو بھی فوری طلب کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’بنا وارنٹ پولیس لوگوں کے گھروں کا تقدس کیسے پامال کر سکتی ہے؟ قتل، ڈکیتی کا پرچہ تو پولیس فوری درج نہیں کرتی، کیا پولیس شکایت کنندہ کی جیب میں ہے؟ ہماری اور آپ کی تنخواہ عوام دیتی ہے، تفتیشی افسر کیخلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایسے مقدمات تو سپریم کورٹ آنے ہی نہیں چاہیے، آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون کہہ رہا ہے توہین مذیب کیس کی تحقیقات ایس پی کرے گا، قانون کے ہوتے ہوئے ماتحت کیسے تحقیقات کرسکتا ہے؟
اس دوران چیف جسٹس مدعی کی جانب سے پیر صاحب، پیر صاحب لفظ استعمال کرنے پر بھی برہم ہوگئے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نام قانون میں درج ہے؟ کس قانون میں دم کرنے کا لکھا ہوا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کا تو ایمان ہی مضبوط نہیں؟
’چادر اور چار دیواری کا تقدس کہاں گیا؟‘
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ توہین مذہب کیس کی مزید انکوائری کی جائے، عدالت نے پولیس کو ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ توہین مذہب کے حساس معاملات کی نگرانی اور تفتیش ایس پی رینک سے کم کا افسر نہیں کرے گا۔
اس دوران سپریم کورٹ کے حکم پر ایس ایس پی اور ایس پی اسلام آباد پولیس عدالت میں پیش ہوئے۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ توہین مذہب کے کیس کی تفتیش ایس پی نے خود کرنا ہوتی ہے، قانون کی خلاف ورزی پر ایس پی کو معطل کریں یا ایس ایس پی کو؟ وکیل کے مطابق پولیس توہین مذہب کے کیسز میں ڈرتی ہے اور جیسے ہی کیس آتا ہے مقدمہ درج کر لیتی ہے۔
’کیا پولیس نے یہ ثابت کرنا ہے کہ توہین مذہب عام ہے؟‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پولیس ڈرپوک ہونے لگی تو بہادر کون رہے گا؟ بغیر وارنٹ کیا پولیس کسی کے گھر میں داخل ہو سکتی ہے؟ چادر اور چار دیواری کا تقدس کہاں گیا؟
چیف جسٹس نے ایس ایس پی سے سوال کیا کہ آپ کے گھر کوئی بغیر وارنٹ جا کر تلاشی لے سکتا ہے؟ پولیس آرڈر 2002 کے مطابق بغیر وارنٹ گرفتاری کسی کے گھر داخل ہونے پر 5 سال کی سزا بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک تصویر کی بنیاد پر توہین مذہب کا کیس بنا دیا جیسے آپ ہی اسلام کے محافظ ہیں، پہلے توہین مذہب کا کیس بنا، گرفتاری ہوئی پھر جا کر تصویر برآمد کرائی، کیا پولیس نے یہ ثابت کرنا ہے کہ توہین مذہب عام ہے اور اس سے اسلام بلند ہو گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص اپنے دوست کو دم کرانے گیا وہاں تصویر دیکھی اور آ کر مقدمہ بنا دیا،پولیس بندوقیں رکھ کر بھی ڈرپوک ہے، ہم اس قسم کے کیسز سے تھک چکے ہیں۔
جس پر شکایت گزار نے کہا کہ ’میں پیر کے پاس دوست کے ساتھ دم کرانے گیا جہاں توہین آمیز تصویر آویزاں تھی‘ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ ’کیا قرآن میں پیر کا ذکر ہے؟ ’
شکایت گزار نے کہا کہ قرآن میں پیر کا نہیں رہبر کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے شکایت گزار سے ایک بار پھر سوال کیا کہ ’پیر کا ہے؟ اب کیا اللہ سے بھی نوک جھونک کرو گے؟‘ جواب میں شکایت گزار نے کہا کہ ’میں تو پیر کو نہیں مانتا صرف دوست کو دم کرانے گیا تھا‘۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’اگر آپ پیر کو نہیں مانتے تو دوست کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’یہ پیر کتنے عرصے سے گرفتار ہے؟‘
جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ’پیر زبیر صابری 7 ماہ سے گرفتار ہے‘، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’پیر کا دم اپنے کام نہیں آ رہا جو ساتھ ماہ سے جیل میں ہے؟‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے پولیس کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ یقینی بنائیں کہ مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو، توہین مذہب کے کیسز کو سنجیدگی سے لیں۔