پاکستان

مسلم لیگ(ن) سمیت کسی جماعت سے باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی، بلاول

کچھ آزاد امیدواروں نے ہم سے رابطہ کیا ہے، پاکستان کے مفاد میں یہ ہے کہ ہم سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ابھی تک پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف یا کسی اور جماعت کے ساتھ کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی تاہم کچھ آزاد امیدواروں نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔

بلاول نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور اس الیکشن میں کامیابی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سپورٹرز، ووٹرز کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کا شکر گزار بھی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک جو نتائج ہیں ان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس کی چاروں صوبوں میں نمائندگی موجود ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک پورے نتائج نہیں آئے ہیں ، ہمیں پوری گنتی بھی نہیں پتا اور آزاد امیدواروں نے بھی اپنا فیصلہ سنایا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں تو یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ کون کہاں حکومت بنا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ بلوچستان، پنجاب اور وفاق میں پیپلز پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی، ابھی تک پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف یا کسی اور جماعت کے ساتھ کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی، ہم اس چیز کے انتظار میں ہیں کہ پہلے پوری گنتی سامنے آ جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے مجھے ویزراعظم نامزد کیا ہے اور اگر مجھے وہ فیصلہ تبدیل کرنا ہے تو ایک بار پھر مجھے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو بلانا پڑے گا اور ہم پھر اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کریں گے کہ پیپلز پارٹی کو کیسے آگے بڑھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا، پاکستان کے مفاد میں یہ ہے کہ ہم سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اب ہمیں آگے جو سفر طے کرنا ہے اس حوالے سے ہم پاکستان کے عوام کے لیے مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ اگر سیاسی عدم استحکام کو حل کیے بغیر حکومت تشکیل دی گئی تو ایسی حکومت کو عوام کی مشکلات حل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اکیلا تو حکومت نہیں بناؤں گا تو شاید اپنی ہر پالیسی پر عمل نہ کر سکوں، معاشی بہتری کے لیے ہمیں بہت سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جو پاکستان میں خوشحالی لا سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی حکومت بنے گی تو ہم اپنے اتحادیوں سمیت سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اگر ہم سب مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ نجکاری ہی وہ حل ہے تو پھر نجکاری کا راستہ اپنا پڑے گا، اگر میں میں اپنے پبلک پرائویٹ پارٹنرشپ پر قائل کرنے میں کامیاب رہا تو ہم ایسا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی معاشی پالیسیاں ہیں انہیں اتفاق رائے سے بنانا ہو گا، میں اشرافیہ کی سبسڈی ختم کرنے کی بات پر قائم ہوں اور جتنا اپنے منشور پر عملدرآمد کر سکا، اتنا کر سکوں گا۔

سابق وزیر خارجہ نے شہباز شریف سے ملاقات کے حوالے سے کہا کہ میں ابھی ایسی کسی ملاقات کی تصدیق نہیں کر سکتا، یہ بہت قبل از وقت ہے، ہم حتمی نتائج کے انتظار میں ہیں اور جب نتائج ہمارے سامنے ہوں گے تو فیصلہ کر سکیں گے کہ ہمیں مسلم لیگ(ن) سمیت باقی جماعتوں سے کس طرح سے رابطہ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں رات تک تو ہم واضح مارجن سے جیت رہے تھے لیکن صبح اٹھا تو ہم ہار رہے تھے، میری مہم چلانے والوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایپلی کیشن پر 61ہزار ووٹرز کو رجسٹر کیا تھا لیکن میں اس الیکشن میں مایوس بالکل نہیں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم نے بیرسٹر گوہر سے رابطہ نہیں کیا، ہم کچھ آزاد امیدواروں سے رابطے میں ہیں لیکن ابھی تک پی ٹی آئی سے ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔