کوہستان کے انتخابی میدان میں ’فتوے‘ سے بےخوف خواتین نے تاریخ رقم کردی
کوہستان کے پدرشاہانہ معاشرے میں دھمکیوں سے بےخوف دبنگ خواتین امیدوار سماجی رکاوٹوں کو توڑ رہی ہیں اور 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے میں درپیش تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخواہ کے ضلع ہزارہ میں کوہستان اور تورغر کے قدامت پسند حلقوں میں تہمینہ فہیم، شکیلہ ربانی، ثنایا سبیل اور مومنہ باسط انتخابی میدان میں اترنے والی پہلی خواتین ہیں۔
یہ چاروں خواتین آزاد حیثیت میں انتخابات لڑ رہی ہیں جن میں سے ثنایا سبیل کے سوا دیگر 3 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت حاصل ہے۔
ضلع کوہستان کو خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب سمجھا جاتا ہے جہاں صنفی بنیاد پر تشدد اور کم عمری کی شادیاں عام ہیں، یہاں کی مقامی خواتین میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے، 97 فیصد سے زائد خواتین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی کسی اسکول یا مدرسے نہیں گئیں۔
یہاں یہ چاروں خواتین اپنا پہلا الیکشن لڑ رہی ہیں جہاں ایک نوجوان لڑکی کے بہیمانہ قتل کا تازہ واقعہ پیش آچکا ہے، محض کچھ عرصہ قبل ضلع کولئی-پالس کے علاقے برشریال میں ایک جرگے نے ایک لڑکی اور اس کی دوست کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اور تصاویر میں اپنے گاؤں کے 2 لڑکوں کے ساتھ کھڑے ہونے پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ واقعہ سال 2012 کے اُس دلخراش واقعے کی یاد دلاتا ہے جس میں 5 لڑکیوں کو رقص کی ویڈیو وائرل ہونے پر ’غیرت‘ کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔
تہمینہ فہیم اپر کوہستان پی کے-31 سے الیکشن لڑ رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہاں کی خواتین اپنے حقوق سے بالکل ناواقف ہیں، پدرشاہانہ معاشرے کے سبب میں اور انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر خواتین امیدوار براہِ راست عام لوگوں، حتیٰ کہ خواتین ووٹرز کے ساتھ گھل مل نہیں سکتیں۔
گزشتہ ہفتے کوہستان کے علما کے ایک گروپ (جس میں زیادہ تر جمعیت علمائے اسلام-فضل الرحمٰن کے ارکان تھے) نے خواتین انتخابی امیدواروں اور ان کے لیے انتخابی مہم چلانے کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور اِس عمل کو غیر اسلامی قرار دیا۔
فتوے میں گھر گھر جا کر عورت کا ووٹ مانگنا قابلِ مذمت قرار دیا گیا، 30 ’مذہبی اسکالرز‘ اور کوہستان کے تقریباً 400 علما نے اس فتوے کی تائید کی ہے۔
شکیلہ ربانی تورغر پی کے-41 میں اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں، ان کی مہم بھی ان لوگوں تک محدود ہے جو خاتون امیدوار کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جرگہ ہی یہاں کا سب سے مضبوط اور بااثر ادارہ ہے، اگر مجھے اپنے ووٹروں سے خطاب کرنا ہے تو مجھے حجرہ (کمیونٹی ہال) استعمال کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں اس کے لیے اور کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے علاقائی کوآرڈینیٹر زاہد خان نے اس فتوے کو خواتین کے حقوق کے منافی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ تورغر اور کوہستان کا علاقہ (جس میں اپر کوہستان، لوئر کوہستان، اور کولئی-پالس شامل ہیں) خیبر پختونخوا کے نمایاں علاقے ہیں جہاں خواتین اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
زاہد خان نے کہا کہ یہاں کی کوئی خاتون قانون ساز یا رکن پارلیمنٹ اس خطے کے مسائل کو اسمبلیوں میں لے جانے میں کافی مؤثر ہو سکتی ہے، کم عمری کی شادیاں اور صنفی بنیاد پر تشدد یہاں بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔
نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن (این سی ایس ڈبلیو) کی سربراہ نیلوفر بختیار نے کوہستان میں جاری ہونے والے اِس فتوے کا نوٹس لیا اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی اِس پر توجہ دلاتے ہوئے استدعا کی کہ خواتین امیدواروں کے لیے محفوظ ماحول یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔