پاکستان

جنرل نشستوں کیلئے 5 فیصد ٹکٹس خواتین کو نہ دینے پر سیاسی جماعتوں کیخلاف شکایت درج

عورت فاؤنڈیشن نے خلاف ورزی والے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کارروائی کرنے کے لیے شکایت درج کرائی ہے۔

8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر 5 فیصد خواتین کو ٹکٹ نہ دینے پر الیکشن کمیشن میں شکایت درج کروادی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کا کہنا ہے کہ انتخابات 2024 میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

عورت فاؤنڈیشن نے خلاف ورزی والے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کارروائی کرنے کے لیے شکایت درج کرائی ہے۔

ان سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی)، جماعت اسلامی (جے آئی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، پاکستان مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا نام شامل نہیں ہے کیونکہ پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پیپلزپارٹی نے جنرل نشستوں پر 5 فیصد سے زائد خواتین امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی نے 5 فیصد سے زائد امیدوار کھڑے کیے تھے، فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’مجھے شک ہے کہ دیگر جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ ہر پارٹی کو الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ جمع کرانا پڑتا ہے کہ اس نے 5 فیصد سے زیادہ خواتین امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کی اکثریت الیکشن کمیشن کے قوانین پر عمل کرنے کے لیے خواتین امیدواروں کو ان نشستوں پر کھڑا کرتی ہے جن پر وہ جیت نہیں سکتیں، پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس کے پاس کئی خواتین امیدوار ہیں جو اپنے بل بوتے پر جنرل نشستیں جیت سکتی ہیں، ان میں نفیسہ شاہ، عذرا فضل پیچوہو، شازیہ مری، فریال تالپور اور دیگر شامل ہیں، یہاں تک کہ فہمیدہ مرزا جب پیپلزپارٹی میں تھیں تو جنرل سیٹ پر جیت جاتی تھیں۔‘

انہوں نے کہا کہ مخصوص اور اقلیتی نشستوں پر نامزدگی کے بعد بھی خواتین کو اسمبلیوں میں عام طور پر 18 سے 23 فیصد نشستیں ملتی ہیں، البتہ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب سے اس معاملے پر تبصرے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔

عورت فاؤنڈیشن نے قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکشن لڑنے والی کم از کم 8 سیاسی جماعتوں کا جائزہ لینے کے بعد انتخابات میں خواتین کی شرکت کی ایک تاریک تصویر پیش کی۔

قومی اسمبلی کی 266 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینے والی8 سیاسی جماعتوں کے عورت فا ؤنڈیشن کی جانب سے کیے گئے اس تجزیے میں یہ بات سامنے آئی کہ 6 جماعتیں، بشمول، پی پی پی پی،جمعیت العلمائے اسلام (ف)،جماعت اسلامی ،عوامی نیشنل پارٹی ،بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور تحریک لبیک پاکستان الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں نتائج میں دعویٰ کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز، جے آئی، ایم کیو ایم اور ٹی ایل پی نے بھی خواتین کے مخصوص کوٹہ کو پورا نہیں کیا۔

سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم، اے این پی اور ٹی ایل پی جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، جے آئی اور جے یو آئی (ف) نے جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد سے زیادہ ٹکٹ دے کر قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، اے این پی، ٹی ایل پی اور جے یو آئی(ف) نے جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد سے زیادہ ٹکٹ دے کر قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

واضح رہے کہ الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کے مطابق ہر سیاسی جماعت کو ہر اسمبلی میں خواتین کو کم از کم 5 فیصد جنرل سیٹ پر ٹکٹ دینا لازمی ہے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی کی سزا مذکورہ قانون کے سیکشن 217 میں دی گئی ہے۔

عورت فاؤنڈیشن نے الیکشن کمیشن کو شکایت درج کرائی ہے، جس میں درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لے اور الیکشن ایکٹ 2017 اور ضابطہ اخلاق کی شق کی خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف سیکشن 217 اور قوانین کی دیگر دفعات کے تحت سخت کارروائی کرے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری

ڈیوس کپ ٹائی: پاکستان کو دوسرے سنگلز میں بھی شکست، بھارت کو 0-2 سے برتری

پاکستان میں مذہبی اقلیتیں آج بھی حقیقی نمائندگی کی منتظر