نقطہ نظر

الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (چھٹی قسط)

آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان کتنے غریب ہوتے ہیں، ان کی جیبیں خالی ہوتی ہیں لہٰذا انہیں بعض اوقات اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان اور الیکشن کہانی جاری ہے۔ پچھلی قسط میں 1988ء کے انتخابات کا ذکر ہوا اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ محترمہ بےنظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی جوکہ منتخب جماعت تھی، کس طرح اس کے ہاتھ باندھ کر اسے اقتدار کی پیشکش کی گئی اور کن شرائط کے تحت انہیں اقتدار دیا گیا لیکن منتخب حکومت ان سے ہضم نہ ہوسکی اور لگ بھگ ڈھائی برس بعد اگست 1990ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو صدر مملکت غلام اسحٰق خان نے برطرف کردیا۔

بےنظیر حکومت پر وہی پرانے الزامات لگائے گئے جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں جیسے کرپشن، بدانتظامی، امن و امان کی خراب صورتحال۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ حکومتیں بن رہی ہوتی ہیں تب کسی کو خیال نہیں آتا کہ یہ کتنی کرپٹ ہوسکتی ہیں، بدانتظامی کتنی ہوگی یا ان کے دور میں امن وامان کتنا خراب ہوگا لیکن جب انہیں رخصت کرنا ہوتا ہے تو یہ تمام چیزیں سامنے آجاتی ہیں اور یہ ہم اور آپ ہمیشہ سے ہی دیکھتے آرہے ہیں۔

بہرحال 6 اگست 1990ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا گیا تو بےچاری سویلین حکومت کیا مزاحمت کرتی۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس کا فوج نے گھیراؤ کرلیا اور باقی تنصیبات پر بھی رکاوٹیں لگا دی گئیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) اور ایم کیو ایم نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی برطرفی کے اس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ پشاور ہائی کورٹ نے اسے غیر قانونی اقدام قرار دیا جبکہ سندھ اور لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کی برطرفی کے فیصلے کو جائز قرار دیا۔ جب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو سپریم کورٹ نے بھی اسے قانونی فیصلہ قرار دیا۔

دستور کے مطابق حکومت کی برطرفی کے بعد جو اگلے انتخابات ہونے تھے وہ ایک غیرجانبدار نگران حکومت کے تحت ہوتے لیکن صدر غلام اسحٰق خان کو کوئی وزیراعظم نہیں ملا تو انہوں نے آئی جے آئی کی اتحادی پارٹی، نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفٰی جتوئی جو بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے مگر اختلافات کی وجہ سے انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی، بہرحال ان کی قیادت میں صدر نے نگران حکومت تشکیل دی جبکہ صوبوں میں بھی نگران حکومتیں آئی جے آئی کی مرضی سے بنائی گئیں تھیں۔

پیپلز پارٹی جس سے اقتدار چھینا گیا تھا اس نے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس بنایا جہاں بےنظیر کی جاعت نے تحریک استقلال، قاسم لیگ اور تحریکِ نفاذ فرقہ جعفریہ جیسی تنظیموں کے ساتھ اتحاد کیا تاکہ الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ لیکن نگران حکومت، صدر اور آئی ایس آئی کا واضح جھکاؤ آئی جے آئی کی طرف تھا جو 1988ء میں شکست کھا چکی تھی۔ چنانچہ ایوان صدر میں روئیداد خان جو کہ سینیئر بیوروکریٹ تھے ان کی قیادت میں مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے الیکشن سیل قائم کیا گیا اور جنرل اسلم بیگ کی رضامندی سے آئی ایس آئی کو سیاست دانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کرنے کی اجازت دی گئی۔

آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان کتنے غریب ہوتے ہیں، ان کی جیبیں خالی ہوتی ہیں لہٰذا انہیں بعض اوقات اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ 14 کروڑ میں سے 6 کروڑ آئی جے آئی کے رہنماؤں اور پیپلز پارٹی کے مخالف صحافیوں میں تقسیم کیے گئے۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، یہ نام آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کی ڈائری میں موجود تھے جو انہوں نے عدالت میں بھی پیش کی تھی۔ پھر اس کے بعد فروری 1997ء میں بھی یہ اسکینڈل چلا اور مرحوم ایئرماشل ریٹائرڈ اصغر خان کیس میں بھی یہ فہرست پیش ہوئی تھی کہ یہ رقم کن کن لوگوں میں تقسیم ہوئی تھی۔

پھر تقریباً 14 یا 15 سال بعد نومبر 2012ء میں چیف جسٹس چوہدری افتخار نے فیصلہ دیا کہ وفاقی حکومت اسد درانی اور جنرل اسلم بیگ کے خلاف تادیبی کارروائی کرے کہ انہوں نے یہ غیر قانونی حرکت کیسے کی۔ فہرست میں جن کے نام تھے، نواز شریف سے لے کر نیچے تک سب مکر گئے اور کہا کہ ہمیں کیا ضرورت ہے ہم کیوں ایجنسیوں سے پیسے لیں گے۔ کسی نے بھی اعتراف نہیں کیا اور پھر وہی ہوا جو ایسے کیسز میں ہوتا ہے درخواست گزار اصغر خان کا انتقال ہوگیا اور یہ کیس داخلِ دفتر ہوگیا۔

آئی جے آئی نے 24 نومبر 1990ء کے انتخابات میں 106 نشستیں جیتیں، پیپلز پارٹی کے اتحاد نے 44 نشستیں جیتیں، 22 نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں جبکہ ایم کیو ایم نے 15 نشستیں جیتیں۔ اسی طرح صوبائی پولنگ میں بھی آئی جے آئی صوبہ پنجاب اور سرحد میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھری جبکہ پیپلز پارٹی نے حسبِ روایت سندھ میں اکثریت حاصل کی۔ مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 45 فیصد تھا جوکہ برا نہیں تھا۔ ہم نے دیکھا کہ الیکشن میں اس سے بھی کم ٹرن آؤٹ ہوتا ہے لیکن تمام تر تلخیوں اور غلط فہمیوں کے باوجود ووٹر ٹرن آؤٹ اچھا رہا۔

نواز شریف آزاد امیدواروں اور باقی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر وزیراعظم بن گئے۔ غلام مصطفی جتوئی یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ شاید انہیں ایک منتخب وزیراعظم کا حلف دلوایا جائے گا لیکن انہیں پتا چلا کہ صدر غلام اسحٰق خان اور ایجنسیاں نواز شریف کو موقع دینا چاہ رہی ہیں تو جتوئی صاحب نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد جو الیکشن اکتوبر 1993ء میں ہوئے ان کا ذکر کرنے سے پہلے یہ جو بیچ کا حصہ ہے یعنی نومبر 1991ء سے دسمبر 1992ء تک کے عرصے میں بظاہر صدر غلام اسحٰق خان اور وزیراعظم نواز شریف بظاہر اپنے اپنے آئینی دائرہ اختیار میں کام کرتے رہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں یہاں انسان ایک دائرے میں کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور پھر ایڑھیاں اونچی کر کے دوسری جانب جھانکتا ہے یہ جاننے کے لیے کہ وہاں کیا چل رہا ہے۔

صدر کو اس حوالے سے اس لیے تشویش نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس اٹھاون-ٹو (بی) کا ہتھیار تھا۔ اس کا ہم پہلے بھی تذکرہ کر چکے ہیں کہ اٹھاون-ٹو (بی) جنرل ضیاالحق کے دور میں متعارف ہوا جس کے تحت صدر کی ذات فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن گئی تھی اور سارے راستے اسی تک آتے تھے، تو اس کے ہوتے ہوئے صدر کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وزیر اعظم اس کے خلاف زیادہ سے زیادہ کیا سازش کر لے گا۔

ایک اور اصطلاح ٹرائیکا کی مشہور ہوئی جس کے تین کونے تھے۔ ایک کونے پر سپہ سالار، ایک پر صدر مملکت اور تیسرے کونے پر وزیراعظم کی ذات ہوتی تھی۔ ٹرائیکا میں دو کونے ساتھ مل جائیں تو تیسرے کونے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی تھی۔ یہ تب پتا چلا جب جنوری 1993ء میں فوج کے سپہ سالار جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک موت ہوئی اور صدر نے اپنے صوابدیدی اختیارات اٹھاون-ٹو (بی) کے تحت نواز شریف سے مشورہ کیے بغیر جنرل عبدالوحید کاکڑ کو نیا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ یوں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں غلط فہمیاں جنم لینے لگیں اور ویسے بھی انسان جتنا اوپر جاتا ہے اس کے کان اتنے ہی کچے ہوتے جاتے ہیں تو اس طرح ہوتے ہوتے دونوں عمارتیں غلط فہمیوں کا مرکز بنتی چلی گئیں۔

وزیراعظم نے اچانک عندیہ دیا کہ وہ صدر کے اختیارات کم کرنا چاہتے ہیں اس لیے کیونکہ انتہائی بااختیار صدر کے لیے کبھی کبھی لگتا ہے کہ وزیراعظم صرف چپراسی کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ نواز شریف کی سوچ تھی۔ ایوانِ صدر نے حفظ ماتقدم کے طور پر وزیراعظم ہاؤس سے رابطہ کم سے کم کرلیا اور ان کے درمیان صرف خیرسگالی کا رابطہ رہ گیا۔ دو روایتی عہدیداروں کے درمیان آئینی تعلق زیرو ہوتا چلا گیا۔

خود آئی جے آئی اور مسلم لیگ (ن) وہ صدر کے حامیوں اور مخالفین میں بٹ گئی۔ 17 اپریل کو نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا اور اس میں انہوں نے الزام لگایا کہ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس کے خلاف سازشوں کا گڑھ بن چکا ہے مگر وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ 24 گھنٹے میں صدرِ مملکت نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی ختم کردی۔

صدارتی تقریر کی گئی کیونکہ ظاہر ہے یہ بھی بتانا تھا کہ نوازشریف کو کیوں برطرف کیا گیا جو میں پہلے بتا چکا ہوں وہی پرانے الزامات لگائے گئے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ کم از کم الزامات ہی نئے لگالیں۔ اقربا پروری، کرپشن، اپوزیشن کو خوفزدہ کرنا، آئین کی خلاف ورزی، مسلح افواج کے فرائض میں مداخلت جیسے وہی پرانے الزامات۔ لگتا ہے کہ یہ الزامات نہیں بلکہ ایک تھانے کی روایتی ایف آئی آر ہے جس میں تھانیدار کہتا ہے کہ یہ دفعہ بھی ڈال دو یہ بھی ڈال دو۔ اس طرح اوپر تک اسٹیٹ آف مائنڈ چلتی ہے پھر چاہے وہ حکومت کی برطرفی کا مسئلہ ہو یا ایک جیب کترے کی گرفتاری کا مسئلہ ہو۔

حکومت کی برطرفی سے پہلے سپہ سالارجنرل وحید کاکڑ اور اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو، حالانکہ ان کی حکومت بھی اسی صدر نے ہی برطرف کیی تھی، دونوں کو غلام اسحٰق خان نے اعتماد میں لیا اور نگران حکومت کا اعلان کیا۔ بلخ شیر مزاری کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ 14 جولائی کو الیکشن کی تاریخ مقرر کی گئی مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نواز شریف نے چونکہ اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کردیا تھا تو 26 مئی کو سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ نے ایک اور 10 ججوں کی اکثریت سے نواز شریف کی حکومت بحال کردی۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1990ء میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہوئی تو بےنظیر بھٹو نے بھی اسے چیلنج کیا تھا لیکن اوپر سے نیچے تک عدالتوں نے اسے جائز قرار دیا تھا۔ پھر جب اسی صدر نے انہیں وجوہات کی بنا پر نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ غیرقانونی ہے۔

لہٰذا نواز شریف کی حکومت بحال ہوگئی لیکن نواز شریف کی اپنی قیادت کو اندرونی طور پر چیلنجز کا سامنا ہمیشہ سے تھا اور جب مسلم لیگ کے ایک دھڑے نے جونیجو حکومت کی برطرفی کے فیصلے کی حمایت کی تھی تو اسی وقت یہ دراڑ گہری ہوگئی تھی۔ لیکن چونکہ پیپلزپارٹی کو روکنا مقصود تھا تو آئی ایس آئی نے آئی جی آئی بنوانے کے لیے وقتی طور پر مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کی چپقلش دبانے کی کوشش کی تھی۔ مگر پھر 1993ء میں نواز شریف اور غلام اسحٰق خان کے درمیان جب اختیارات کی جنگ چھڑی تو ایک بار پھر پارٹی اندرونی رسہ کشی کا شکار ہونے لگی۔

مسلم لیگ کے جونیجو گروپ نے صدر غلام اسحٰق خان کا ساتھ دیا، نواز شریف کے حامیوں نے لاہور میں کنوینشن بلا کر پاکستان مسلم لیگ نواز بنالی۔ 18 مارچ کو سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو جو خود بھی اٹھاون-ٹو (بی) کا شکار ہوئے تھے، کا انتقال ہوگیا اس کے بعد حامد ناصر چٹھہ ان کی جگہ پارٹی کے دھڑے کے لیڈر بنے اور انہوں نے حسب دستور غلام اسحٰق خان کا ساتھ دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اٹھاون-ٹو (بی) نے جونیجو اور بےنظیر بھٹو دونوں کی حکومتیں ختم کی تھیں مگر بعد میں دونوں نے یکے بعد دیگرے اسی تلوار سے مسلح صدور کا ساتھ دیا۔ اس بحران کے دوران جونیجو دھڑے نے شریف خاندان کے وفادار پنجاب کے وزیراعلی غلام حیدر وائین ان کے خلاف پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جیت لی اور اسپیکر منظور وٹو پیپلز پارٹی اور آزاد اراکین کی مدد سے نئے وزیراعلیٰ بن گئے۔

جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کی وفاقی حکومت بحال کی تو پھر نواز شریف نے پہلا کام منظور وٹو کو ہٹانے کا کیا۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی توڑنے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کروائی، منظور وٹو نے اسے کسی طریقے سے ناکام بنا دیا پھر انہوں نے دوبارہ تحریک عدم اعتماد پیش کی، مطلب یہ کہ پنجاب اسمبلی میں ایک تماشہ شروع ہوگیا۔ صدر اور نواز شریف کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا تو 29 جون کو نوازشریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا اور یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ اس مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کروائی گئی کہ وفاقی حکومت پنجاب کا کنٹرول سنبھال لے۔

نواز شریف نے صدر سے مشورہ کیے بغیر ہی پنجاب میں میاں محمد اظہر کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ البتہ 1973ء کے آئین میں صوبائی ایڈمنسٹریٹر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پھر نواز شریف کی بحال شدہ حکومت جسے بحال بھی سپریم کورٹ نے کیا تھا وہ زیادہ اکڑ کر سامنے آئی۔ اس نے پنجاب کا نیا چیف سیکرٹری اور آئی جی اپنے طور پر مقرر کیا اور کورکمانڈر لاہور سے کہا کہ کہ وہ وفاقی ٹیک اوور کے لیے افرادی قوت، رینجرز وغیرہ فراہم کریں۔ کورکمانڈر نے انکار کردیا لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاہور سے اسلام آباد تک کاروبار حکومت مفلوج ہو گیا۔

اس دوران جلتی پر تیل کا کام قائدِ حزبِ اختلاف بے نظیر بھٹو نے کیا، وہ جو کہتے ہیں ناں ’گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘ تو اس کے تحت انہوں نے 16 جولائی کو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ اب جنرل وحید کاکڑ کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مسئلے کو کیسے حل کیا جائے تو طے یہ پایا کہ انہوں نے صدر جو تلوار نکالے کھڑے تھے اور وزیراعظم نواز شریف، دونوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرے کہ نہ آپ وزیراعظم رہیں نہ یہ صدر رہیں بلکہ آپ ان سے درخواست کریں کہ آپ قومی اسمبلی توڑ دیں اور قومی اسمبلی توڑنے کے اگلے دن غلام اسحٰق صاحب اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ دونوں نے اس پر اتفاق کیا۔ چنانچہ 18 جولائی کو صدر نے وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلی توڑ دی اور پھر آدھی رات کو اچانک سے ایک کردار نمودار ہوا۔ وہ سنگاپور سے پاکستان آئے تھے اور ان کا نام معین احمد قریشی تھا۔

کسی کو نہیں معلوم تھا یہ کون صاحب ہیں سب نے پہلی بار ان کا نام سنا تھا۔ غلام اسحٰق خان نے اگلے دن استعفی دے دیا، چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد قائم مقام صدر بن گئے اور پھر آپ کو پتا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں وغیرہ بھی ٹوٹ گئی اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوگیا۔ معین قریشی نگران وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ آئی جے آئی جسے 1988ء کے انتخابات لڑنے کے لیے پیدا کیا گیا تھا انتخابات کے بعد اس کی افادیت ختم ہوگئی اور وہ ٹوٹ گیا۔ نواز لیگ نے 1993ء کے انتخابات اکیلے لڑنے کا فیصلہ کیا جبکہ پیپلز پارٹی اور جونیجو دھڑے نے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی۔

جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام الیکشن لڑا۔ اللہ جانے کے اسلامی فرنٹ کے نام سے کیوں کہ الیکشن لڑا اس لیے کیونکہ اس میں صرف جماعت اسلامی ہی تھی تو وہ جماعت اسلامی کے نام سے بھی لڑ سکتی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ انہوں نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کیا ہوگا۔ دیگر جماعتوں نے بھی اپنے اپنے محاذ بنا لیے، 24 مذہبی جماعتوں کا متحدہ دینی محاذ بنا تھا، بائیں بازو کا بھی اتحاد بنا تھا۔ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا پچھلے الیکشن میں لیکن صوبائی انتخابات لڑے تھے۔

6 اکتوبر 1993ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو 86 نشستیں ملیں۔ اب آپ ایک بات پر غور کریں کہ نواز شریف کی حکومت کو برطرف کردیا گیا، اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو بھی برطرف کردیا گیا، ان کے بعد جو الیکشن ہوئے اس میں نواز شریف آئے اور جب نواز شریف کو برطرف کیا گیا تو دوبارہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔ اللہ جانے یہ چمتکار کیسے ہوا ووٹرز نے کیا یا دوسری قوتوں نے کیا۔ لہٰذا اب پیپلز پارٹی کی باری تھی تو اسے 86 نشستیں ملیں اور اس کی اتحادی کو 6 نشستیں ملیں جبکہ نون لیگ کو 73 نشستوں پر رکھا گیا، آزاد امیدوار 15 تھے اور اسلامی جمہوری محاذ کو 4 نشستیں ملیں۔ ووٹ ڈالنے کی شرح 38 فیصد رہی تھی جوکہ بہت کم تھی اس سے آپ اس اکتاہت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پولیٹیکل سسٹم سے ووٹر جو ہے کس حد تک جا چکا تھا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی۔ باقی تین صوبوں میں کسی کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی البتہ جونیجو لیگ نے چھوٹی جماعتوں کے تعاون سے پنجاب میں حکومت بنائی۔ سرحد میں نواز لیگ اور اے این پی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ بلوچستان میں بھی نواز لیگ نے مخلوط حکومت کی قیادت کی مگر چھ ماہ بعد پیپلز پارٹی نے سرحد میں جوڑ توڑ کرکے اپنی حکومت بنا لی۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ 13 نومبر کو صدارتی انتخابات ہوئے اور پیپلزپارٹی نے سردار فاروق لغاری جو کہ پارٹی کے وفادار تھے، انہیں اپنا صدارتی امیدوار کھڑا کیا اور نون لیگ نے قائم مقام صدر وسیم سجاد کو امیدوار بنایا اور فاروق لغاری صاحب جیت گئے۔ اب صدر بھی پیپلزپارٹی کا تھا جبکہ وزیراعظم بھی محترمہ بےنظیر بھٹو تھیں تو سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

مگر کرسی کمبخت ایسی شے ہے جو سگے کو سگے سے لڑوا دیتی ہے بلکہ اس کا خون بھی کروا دیتی ہے۔ یہ میں کیا کہہ رہا ہوں اس کی وضاحت میں اگلی قسط میں کروں گا۔

وسعت اللہ خان

وسعت اللہ خان سینیئر صحافی و کالم نگار، اور ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے شریک میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔