نقطہ نظر

الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (پانچویں قسط)

محمد خان جونیجو صاحب نے کہا 'میں جرنیلوں کو سوزوکی میں بٹھاؤں گا'، یہ بیان درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی دم پر پاؤں رکھنے کے مترادف تھا اور بہت بعد میں جا کر اس بیان کا غصہ ان کی برطرفی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان اور الیکشن کہانی جاری ہے۔ ہم آپ کو پچھلی قسط میں بتا چکے ہیں کہ 1985ء میں ضیاالحق صاحب نے غیر جماعتی الیکشن کروا کر پوری کوشش کی کہ ایک ایسا سیاسی طبقہ جنم لے جو ہر چیز کے لیے انہیں کی جانب دیکھے لیکن آپ کو پتا ہے کہ جس میں سیاست کا کیڑ ا ہو وہ زیادہ دیر تک قابو میں نہیں رہ سکتا تو اسی غیرجماعتی ایوان میں ایک بار پھر مسلم لیگ کا ظہور ہوا۔

ایوان نے پیر صاحب پگارا کی جماعت کے رہنما محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا لیا۔ بنا کیا لیا، ضیاالحق صاحب نے ان کا نام دیا اور اسمبلی نے کہا کہ جی ٹھیک ہے یہی ہمارے وزیراعظم ہیں یعنی ضیاالحق صاحب نے بہت احتیاط سے ایک آدمی چنا۔ ضیاالحق صاحب کا خیال یہ تھا کہ جو سویلین وزیراعظم چنا جائے وہ ایسا ہوکہ بطور چپراسی اسے بڑی آسانی سے استعمال کیا جاسکے۔ لیکن جب رفتہ رفتہ محمد خان جونیجو نے بطور وزیراعظم اپنے اختیارات کا استعمال کرنا شروع کیا تو ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں کشیدگی پیدا ہوگئی جو رفتہ رفتہ بڑھتی چلی گئی اور اتنی بڑھ گئی کہ ڈھائی پونے تین برس بعد 29 مئی 1988 کو خود ضیاالحق نے اپنے ہی ہاتھ سے چنے ہوئے وزیراعظم کو برطرف کردیا۔

اگر ہم وجوہات پر غور کریں تو ظاہر ہے کہ جونیجو صاحب سے پہلے تک ضیاالحق فیصل آباد کے گھنٹہ گھر جیسے تھے یعنی تمام راستے انہیں کی طرف آتے تھے، ہر آدمی انہیں کی طرف دیکھتا تھا لیکن جب آپ وزیراعظم کسی کو بناتے ہیں تو تھوڑے بہت اختیار تو وہ بھی استعمال کرتا ہے۔ خارجہ اور داخلہ کے معاملات میں وزیراعظم نے زیادہ خودمختاری دکھانا شروع کردی۔ پھر انہوں نے آتے ہی ایک بیان بھی دیا تھا کہ جمہوریت اور مارشل لا ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ ضیاالحق پر دباؤ بڑھ گیا کہ اب جبکہ آپ نے انتخابات کروا ہی دیے ہیں تو مارشل لا نہ اٹھانے کا کیا جواز بنتا ہے۔ پھر جونیجو صاحب نے کہا کہ ’میں جرنیلوں کو سوزوکی میں بٹھاؤں گا‘، یہ بیان درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی دُم پر پاؤں رکھنے کے مترادف تھا اور بہت بعد میں جاکر اس بیان کا غصہ ان کی برطرفی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔

اس زمانے میں سوویت افواج افغانستان میں جنگ کرکے تھک چکی تھیں اور وہ انخلا چاہتی تھیں۔ ضیاالحق صاحب چاہتے تھے کہ سوویت افواج کو مزہ چکھایا جائے، امریکا اور سعودی عرب بھی یہی چاہتے تھے۔ اور ان کا انخلا ایسے نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں ویسی ہی خراب حالت میں واپس جانا چاہیے جیسے امریکا کو ویتنام سے جانا پڑا تھا۔ لیکن جونیجو صاحب کی سیاسی حکومت چاہتی تھی کہ اگر سوویت یونین کو احساس ہوگیا ہے اور وہ انخلا چاہتے ہیں تو ہمیں اس میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ افغانستان میں ایک قومی حکومت کی تشکیل میں ہمیں ہاتھ بٹانا چاہیے جس میں اس زمانے کی حکومت جو کمیونسٹ حکومت تھی اس کی بھی تھوڑی بہت نمائندگی ہو، دیگر قومیتوں کی بھی نمائندگی ہو اور جو مجاہدین لڑ رہے تھے ان کی بھی نمائندگی ہو تاکہ ایک عبوری سیٹ اپ قائم ہو اور اس کے تحت افغانستان ایک عام ریاست قائم بن سکے۔

اس مسئلے پر ضیاالحق اور جونیجو حکومت کے درمیان ٹھن گئی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان تھے جبکہ وزیر مملکت برائے خارجہ زین نورانی تھے جوکہ جونیجو صاحب کے خاص آدمی تھے، ان دونوں کو بالا بالا جنیوا میں سوویت یونین اور افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے بھیجا گیا۔ انہیں بھیجنے کے حوالے سے ضیاالحق صاحب کو صرف اطلاع دی گئی، کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔

پھر اچانک اپریل 1988ء میں ایک واقعہ ہوتا ہے، راولپنڈی کے قریب اوجڑی کیمپ جوکہ بہت بڑا اسلحہ ڈپو تھا اور کہا جاتا تھا کہ افغانستان کے مجاہدین میں جو اسلحہ دیا جاتا ہے اس کی بہت بڑی تعداد اس مقام پرموجود تھی، یہاں دھماکا ہوا اور دھماکے کے نتیجے میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں اور سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ جونیجو صاحب کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اس واقعے کی غیرجانبدرانہ تحقیقات کروائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت سے پردہ نشین بے نقاب ہو سکتے تھے۔

تو پھر ہوا یہ کہ مجھے یاد ہے کہ محمد خان جونیجو فلپائن کے دورے پر تھے اور جیسے ہی انہوں نے فلپائن سے ٹیک آف کیا دورانِ پرواز ہی ضیاالحق نے اعلان کردیا کہ جونیجو حکومت برطرف کی جاتی ہے کیونکہ امن و امان کی صورتحال بے قابو ہے، کرپشن بہت زیادہ ہوگئی ہے، بے راہ روی بڑھتی جارہی ہے، اسلامائزیشن کی رفتار سست ہوگئی ہے اور اسی طرح کے روایتی الزامات لگا کر حکومت برطرف کردی گئی۔ حکومت کی برطرفی کے بعد 20 جولائی کو ضیاالحق نے اعلان کیا کہ انتخابات 16 نومبر کو ہوں گے لیکن یہ انتخابات 1985ء کی طرح غیر جماعتی انداز میں ہوں گے یا جماعتی بنیاد پر، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ اور پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ 17اگست 1988ء آگیا اور ضیاالحق صاحب کا طیارہ پھٹ گیا۔

ان کی وفات کے بعد سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحٰق خان قائم مقام صدر بن گئے اور نائب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ نے چیف آف آرمی اسٹاف کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ضیا صاحب کو اپنی زندگی میں ہی دھچکا لگا تھا جب سپریم کورٹ نے 1986ء کے سیاسی جماعتوں کی لازمی رجسٹریشن کے قانون کو مسترد کردیا اور خود ضیاالحق کی موت کے بعد ستمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 29 مئی کو اسمبلی توڑنے کا فیصلہ غیر آئینی تھا مگر چونکہ انتخابی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے اس لیے ہم اسمبلیاں بحال نہیں کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ برقرار رکھا چنانچہ حکومت کو جماعتی بنیاد پر انتخابات کروانے کا حکم دیا گیا۔

1977ء کے بعد 1988ء کے انتخابات وہ پہلے انتخابات تھے جو جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کو ضیاالحق صاحب کے مارشل لا دور میں ہر طریقے سے دبانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ جن قابو میں نہیں آیا اور صاف لگ رہا تھا کہ اگر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوتے ہیں تو پیپلزپارٹی ہو سکتا ہے کہ واضح اکثریت حاصل کرلے۔ اور اگر پارٹی ایک بار برسرِاقتدار آگئی تو پتا نہیں کس کس سے انتقام لے گی اور کس کس کو سزا ملے گی۔ ان خدشات کو دیکھتے ہوئے ایک 9 جماعتی اتحاد اچانک سے انتخابات سے ایک مہینے پہلے ظہور میں آیا۔ اس اتحاد کا نام اسلامی جمہوری اتحاد ( آئی جے آئی) تھا۔ اس بات کو اب 30 برس سے زائد ہوگئے ہیں اور کئی دفعہ اسٹیک ہولڈرز خود اپنے منہ سے کہہ چکے ہیں کہ یہ اتحاد ہنگامی طور پر آئی ایس آئی کی مدد سے بنایا گیا تھا تاکہ ایک توازن قائم ہوسکے اور پیپلز پارٹی کو بے لگام پاور نہ مل جائے۔

اس اتحاد میں غیر جماعتی ایوان کی پیداوار مسلم لیگ تھی، جماعت اسلامی تھی، غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب کی نیشنل پیپلز پارٹی تھی، جے یو آئی سمیع اللہ، نظام مصطفیٰ پارٹی، مرکزی جمعیت اہل حدیث لکھوی وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے تین چار جماعتیں تو ایسی تھیں جنہوں نے کبھی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا تھا تو یوں جلدی سے ان جماعتوں کو جمع کرکے یہ نو جماعتی اتحاد تشکیل پایا۔

انتخابی مہم میں آئی جے آئی کے پاس ایک تو نظام مصطفیٰ اور اسلامی نظام کا روایتی منشور تھا لیکن زیادہ زور بھٹو خاندان بالخصوص خواتین پر ذاتی حملوں پر تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کے مخالف دیکھ چکے تھے کہ 10 اپریل 1986ء کو جب بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد دوبارہ لاہور میں اترپہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے عوام کے صرف سر ہی سر نظر آ رہے تھے تو اس بنیاد پر یہ حساب یہی لگایا جارہا تھا کہ پیپلزپارٹی کو اگر روکا نہیں گیا، اسپیڈ بریکر نہیں لگایا گیا تو یہ لینڈ سلائیڈ بھی لے سکتی ہے۔

ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے محترمہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے مل کر انتخابی مہم چلائی۔ مجھے یاد ہے کہ اس سال ہم انتخابات کور کررہے تھے تو کراچی سے لاہور تک راستے میں جہاں بھی ہم نے لوگوں سے پوچھا کہ آپ پیپلز پارٹی کو ووٹ کیوں دے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم قرضہ اتار رہے ہیں، بھٹو کو پھانسی ہوگئی اور 1977ء کے بعد انتخابات نہیں ہوئے تو یہ ووٹ ہم قرض اتارنے کے لیے دے رہے ہیں۔ اور ویسے بھی 1988ء میں پیپلزپارٹی 10 برس بعد الیکشن لڑ رہی تھی اور وہ بھی بھٹو کے نام پر تو اس طرح مہم چلی اور ووٹر ٹرن آؤٹ لگ بھگ 33 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ انتخابی نتائج کے حساب سے پیپلزپارٹی کو قطعی اکثریت تو نہیں مل سکی لیکن وہ سب سے زیادہ اکثریت والی جماعت بن کر ابھر کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی نے 94 نشستیں، آئی جے آئی نے 54 نشستیں جبکہ آزاد امیدواروں نے 27 نشستیں حاصل کیں۔

ان انتخابات میں ایم کیو ایم نے پہلی بار کراچی اور حیدرآباد سے قومی اسمبلی کی 13 نشستیں حاصل کیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی اکثریت تھی جبکہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی صوبائی اکثریت تھی۔ پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم، اے این پی اور آزاد اراکین کے ساتھ مل کر سندھ میں اور وفاق میں اپنی حکومت بنائیں۔ 2 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور یہ تاریخی جملہ تب سے ہمارے کانوں میں پڑ رہا ہے کہ Democracy is the best revenge (جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے)۔

مگر انہیں مشروط طور پر حکومت سونپی گئی کھلا ہاتھ نہیں دیا گیا مثلاً شرط یہ لگائی گئی کہ بی بی وزیراعظم بنتی ہیں تو اس وقت کے نامزد صدر غلام اسحٰق خان کو باقاعدہ پانچ سالہ مدت کے لیے صدر منتخب کروایا جائے گا۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ کے عہدے پر برقرار رکھا جائے گا، دفاعی بجٹ میں کوئی کٹوتی نہیں ہوگی اور اس طرح کی دیگر شرائط تھیں۔ ان شرائط کی روشنی میں پیپلزپارٹی میں بھی دو دھڑے بن گئے، ایک کہتا تھا کہ اگر ہمیں ہاتھ باندھ کر حکومت مل رہی ہے تو ہمیں نہیں لینی چاہیے لیکن بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ پارٹی کارکنان اتنی مصیبتیں اٹھا چکے ہیں کہ انہیں ریلیف کے لیے وفقہ چاہیے اور بہتر یہ ہوگا کہ بحالت مجبوری سے ہی صحیح اگر حکومت آ رہی ہے تو انکار نہیں کرنا چاہیے لہٰذا بی بی نے فیصلہ کیا کہ پیپلز پارٹی کو حکومت لے لینی چاہیے۔

اس کے بعد چونکہ وعدہ ہوا تھا کہ غلام اسحٰق خان کو صدر بنوانا ہے تو مجھے یاد ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان صدارتی امیدوار تھے، انہوں نے 1983ء اور 1986ء کی ایم آر ڈی کی تحریکوں میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ چونکہ پیپلزپارٹی سمجھوتے کے تحت پابند ہوچکی تھی اس لیے نصراللہ خان کو پیپلزپارٹی نے ہی ہروا دیا اور یوں غلام اسحٰق خان پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں چونکہ آئی جے آئی کی اکثریت تھی اس لیے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف بنے اور اس کی وجہ سے ہوا یہ کہ وفاق جہاں بی بی کی حکومت تھی اور پنجاب جہاں نواز شریف کی حکومت تھی، دونوں ایک دوسرے کے لیے کھلے میدانِ جنگ بن گئے اور کاروبارِ حکومت تقریباً مفلوج ہو کر رہ گیا۔

اگلے برس اکتوبر 1989ء میں بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی گئی اور اس کے بارے میں بھی اب کھل کے سامنے آچکا ہے کہ یہ ایجنسیوں کے مسلسل دباؤ کا نتیجہ تھی کیونکہ وہ بی بی کی حکومت کو جلد از جلد چلتا کرنا چاہتے تھے۔

بالآخر ہوا یہ کہ لگ بھگ ڈھائی برس بعد طویل مارشل لا کے بعد آنے والی جمہوری حکومت کو اسٹیبلشمنٹ نے سیاستدانوں کی مدد سے ختم کردیا۔ حالانکہ بی بی کی حکومت ختم کرنے والے غلام اسحٰق خان کو بی بی نے ہی اٹھاون-ٹو (بی) کی تلوار سمیت صدر بنوایا تھا۔ انتقالِ اقتدار کے صلے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت بھی دیا تھا۔

لیکن ایک ٹرائی اینگل وجود میں آگیا تھا جس کے ایک سرے پر وزیراعظم ہوتا تھا اور باقی دو سروں پر چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر ہوتے تھے۔ اس زمانے میں ہم کہتے تھے ’ٹرائیکا‘ اور ٹرائیکا کے اگر دو سرے آپس میں مل جائیں تو آپ جانتے ہیں کہ تیسرے کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ جمہوری تجربہ ڈھائی برس بھی برداشت نہیں ہوسکا اور ٹرائیکا کے دو کونوں نے تیسرے کونے کو اگست 1990ء میں بے دخل کردیا۔ اس کے بعد بھی ظاہر ہے کہ انتخابات ہوئے اور یہ انتخابات کیسے ہوئے اس بارے میں آپ کو اگلی قسط میں بتائیں گے۔

وسعت اللہ خان

وسعت اللہ خان سینیئر صحافی و کالم نگار، اور ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے شریک میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔