پاکستان

آئندہ وزیراعظم ایم کیو ایم کے ووٹ کے بغیر بننا مشکل ہو گا، خالد مقبول

18ویں ترمیم ملک کو بحران کا شکار کر گئی اور وفاق کے پاس کچھ نہیں بچا، ایم کیو ایم پاکستان پر لندن کے بائیکاٹ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، سربراہ ایم کیو ایم

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ وزیراعظم ایم کیو ایم کے ووٹ کے بغیر بننا مشکل ہو گا اور اگر مسلم لیگ(ن) کو واضح اکثریت ملی تب بھی ایم کیو ایم کی ضرورت پڑے گی۔

ڈان نیوز کے پروگرام ان فوکس میں گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ملک چلانے کے ساتھ ساتھ بچانا بھی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ کراچی بچالیں تو ملک بھی بچ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ واضح کیا کہ 18ویں آئینی ترمیم طاقت کی منتقلی کے لیے تھی لیکن اس سے طاقت کا ارتکاز ہوا، اس کا درست ہونا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم ملک کو بحران کا شکار کر گئی اور وفاق کے پاس کچھ نہیں بچا، نیشنل فنانس کمیشن اور صوبائی فنانس کمیشن ایک دوسرے سے مشروط ہونا چاہیے، ایک ہی وقت میں ایک ہی فارمولے کے تحت جیسے رقم صوبے کو جاتی ہے اسی طرح ضلعی کونسلز، دیہات اور شہروں کو بھی جانا چاہیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان پر لندن کے بائیکاٹ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، لندن نے کراچی جلسے کا بائیکاٹ کیا مگر جلسے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مینڈیٹ تحریک انصاف نے نہیں چھینا بلکہ وہ تو بینفشری تھے، اب کوئی 2ارب کیا 5 ارب میں بھی پتنگ نہیں بیچ پائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے پی ڈی ایم کو مشورہ دیا تھا کہ تحریک انصاف کو حکومت پوری کرنے دو اور پھر مشورہ دیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے فوری بعد الیکشن کرا دیے جائیں۔

اس موقع پر انہوں نے سابقہ پی ٹی آئی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے ملکی معیشت کے سینے میں خنجر گھونپا، پی ٹی آئی حکومت میں سنجیدگی کا فقدان تھا، اس لیے وزارت چھوڑی اور تحریک عدم اعتماد کے وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کے آثار موجود تھے۔

خالد مقبول صدیقی نے آئندہ حکومت میں کابینہ کا حصہ نہ بننے کا عندیا دیتے ہوئے کہا کہ میرا مشورہ ہے کہ ایم کیو ایم حکومت سازی کا حصہ تو بنے مگر کابینہ میں نہ بیٹھے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اس وقت سب کی مجبوری ہے اور مسلم لیگ(ن) دو تہائی اکثریت حاصل کرلے تب بھی اسے ایم کیو ایم کی ضرورت پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ نوازشریف کی بطور امیدوار وزارت اعظمیٰ حمایت کریں گے بلکہ جو بھی ہماری 3شرائط پوری کرے گا ایم کیو ایم اس کو ووٹ دے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے مزید کہا کہ ہماری تو خواہش ہے کہ سندھ کی قیادت میں ساتھ مل کر چلیں لیکن پیپلز پارٹی نے صوبے کو ریاست بنایا ہوا ہے، بلاول بھٹو سے امید کی جاسکتی ہے مگر ان پر اعتبار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے لسانی بنیادوں پر کوٹہ لگایا اور کراچی کے 22 ہزار ارب روپے ٹیکس کے پیسے پیپلزپارٹی کو ملے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم بکھر نہیں بلکہ نکھر رہی ہے اور سابق میئر کراچی وسیم اختر اور عامر خان اب بھی ایم کیو ایم کا حصہ ہیں۔

طلعت حسین انتہائی علیل، لوگوں کو پہچاننے سے قاصر

شعیب ملک کی شادی: خواتین کو پروڈکٹ لکھنے پر نبیل ظفر کو تنقید کا سامنا

نگران حکومت کا اسٹیٹ لائف انشورنس کے سرمائے میں ایک ارب 80 کروڑ روپے تک اضافے کا فیصلہ