الیکشن ڈیوٹی کے دوران خواتین انتخابی عملے کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
8 فروری 2024ء کے قریب آتے ہی جہاں ایک جانب ملک بھر میں سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان میں انتخابی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے وہیں انتخابی عملہ بھی یہ قومی فریضہ سرانجام دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 220 کے تحت وفاقی و صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کو اپنی خدمات فراہم کرنے کی پابند ہیں جبکہ ریٹرننگ افسر آئین کے آرٹیکل 220 کے سیکشن 5 کے مطابق کسی بھی محکمے سے الیکشن ڈیوٹی کے لیے افسران و اہلکار تعینات کر سکتا ہے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری حتیٰ کہ وقت پڑنے پر نجی ادارے کے ملازمین کی بھی بطور سرکاری عملہ خدمات حاصل کرسکتا ہے۔
انتخابی ڈیوٹی سے انکار پر آئین کے آرٹیکل 178 اور 179 کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے جس کی سزا برطرفی بھی ہو سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کے لیے ملک بھر سے 9 لاکھ 85 ہزار 413 افراد پر مشتمل انتخابی عملے کا تقرر کیا گیا ہے جن میں سرکاری، نیم سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین شامل ہیں۔
خواتین سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد بھی انتخابات میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے گی۔ دیگر شعبہ جات کی طرح خواتین کو بطور انتخابی عملہ بھی متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈان نیوز ڈیجیٹل نے شعبہِ تعلیم سے وابستہ خواتین سرکاری ملازمین سے رابطہ کیا اور بطور انتخابی عملہ ان کے مسائل اور تجربات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
فہمیدہ* 1977ء کے بعد سے تقریباً تمام عام، ضمنی، بلدیاتی انتخابات اور ریفرنڈمز میں بطور انتخابی عملہ کام کرچکی ہیں جبکہ 2018ء میں وہ پریزائیڈنگ افسر (پی او) کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ ہم نے ان سے عملے کی ٹریننگ کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’میرے نزدیک گزشتہ انتخابات میں ٹریننگ حاصل کرنے والے ملازمین کو دوبارہ اسی عمل سے گزارنا عوامی وسائل کا ضیاع ہے۔ اگر آپ کوئی نیا طریقہ متعارف کروا رہے ہیں یا پھر کوئی پہلی دفعہ انتخابی ٹریننگ لے رہا ہے تو ایسے میں اس کی بہترین تربیت ہونی چاہیے لیکن اگر ایک شخص کے پاس پہلے سے انتخابی عملے کے طور پر کام کرنے کی تربیت موجود ہے تو انہیں دوبارہ ٹریننگ دینے کے بجائے ویڈیو بنا کر بھی تربیت دی جاسکتی ہے‘۔
ثانیہ* 16 سال سے ٹیچنگ کررہی ہیں، رواں برس وہ بطور اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسر (اے پی او) الیکشن ڈیوٹی سرانجام دیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس بار ٹریننگ 2018ء والی ٹریننگ سے قدرے مختلف تھی۔ پہلے صرف ایک گھنٹے کی ٹریننگ ہوتی تھی اور باقی وقت خواتین آپس میں باتیں کرکے ضائع کردیتی تھیں لیکن اس دفعہ ٹریننگ کا پورا وقت لیا گیا۔ ہاں باتیں سب وہی تھیں جن کی تربیت ہم پہلے بھی حاصل کرچکے تھے‘۔
ایمن* 37 سال سے تعلیمی شعبے سے وابستہ ہیں اور 1988ء کے بعد منعقد ہونے والے ہر طرح کے انتخابی عمل میں بطور انتخابی عملہ کام کرچکی ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ ’اسکول کا تقریباً تمام عملہ ہی ٹریننگ کرتا ہے تو انہیں کسی دور دراز علاقے میں ٹریننگ کے لیے بلانے سے بہتر ہے کہ ٹرینر کو اسکول ہی بھیج دیا جائے تاکہ تمام عملہ بیک وقت مستفید ہوسکے اور اس طرح خواتین طویل سفر سے بھی بچ سکیں گی‘۔
خواتین اساتذہ کو انتخابی ڈیوٹی پر تعینات کردیا جاتا ہے لیکن بہت سی خواتین کے لیے نوکری اور گھر کے ساتھ انتخابی ڈیوٹی کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہماری اس سلسلے میں جتنی بھی خواتین سرکاری ملازمین سے بات ہوئی سب نے ہی اس بات پر اتفاق کیا کہ الیکشن ڈیوٹی قریب کے علاقوں میں لگنی چاہیے لیکن ایمن نے اس سلسلے میں جو مؤقف اپنایا وہ اہم تھا۔
’خواتین عملے کی ڈیوٹی اس کے اسکول کے نہیں بلکہ ان کے رہائشی پتے کے نزدیک لگانی چاہیے۔ کچھ ملازمین کا گھر ان کے اسکول سے دور ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ اسکول سے دوپہر میں فارغ ہوجاتی ہیں اس لیے انہیں دن میں اپنے گھر واپسی میں مسئلہ نہیں ہوتا لیکن انتخاب والے دن خواتین رات میں دیر سے ذمہ داریوں سے فارغ ہوتی ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی ڈیوٹی گھر کے قریب ہو تاکہ انہیں گھر واپسی میں مسئلہ نہ ہو‘۔
ایمن مزید کہتی ہیں کہ ’اگر ہم خرابی صحت کا عذر پیش کرکے انتخابی ڈیوٹی سے دستبردار ہونا چاہیں تو اس سلسلے میں صرف سندھ سروسز اسپتال کا میڈیکل سرٹیفکٹ قبول کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہم جس ڈاکٹر کو دکھا رہے ہیں ان کا میڈیکل بھی قبول کیا جانا چاہیے کیونکہ زیادہ تر ٹیچرز سندھ سروسز اسپتال میں پینل ہونے کے باوجود وہاں سے علاج کروانا نہیں چاہتیں‘۔
اس حوالے سے فہمیدہ نے کہا کہ ’ہر خاتون سرکاری ملازم مختلف وجوہات کی بنا پر انتخابی عمل میں بھی حصہ نہیں لے سکتی۔ میری دوست حاملہ تھی لیکن اس کی ڈیوٹی لگا دی جب اس نے اعتراض کیا تو اسے اپنی ڈیوٹی بدلوانے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی اور اپنا متبادل دینا پڑا تاکہ اس کی ڈیوٹی ہٹائی جاسکے۔ لیکن اب نظام ایسا ہوگیا ہے کہ جس کا نام آجائے اسے ہر صورت ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے۔ میرے نزدیک یہ درست طریقہ نہیں ہے۔ اگر کوئی خاتون ڈیوٹی سے انکار کرتی ہے تو اس خاتون کے افسر سے اس خاتون کے عذر کی تصدیق کرسکتے ہیں کیونکہ خواتین کے مسائل الگ ہوتے ہیں انہیں اس معاملے میں اتنا ریلیف تو دینا چاہیے کہ ان کے پاس اپنی ڈیوٹی سے معذرت کا حق موجود ہو‘۔
ثانیہ مزید بتاتی ہیں کہ ’میری ساتھی کو ایک دفعہ ناتجربہ کار پریزائیڈنگ افسر انتخابی سامان لینے کے لیے اپنے ساتھ سٹی کورٹ لے گئے تھے۔ اس کام میں بہت وقت لگتا ہے جوکہ خواتین کو خوار کرنے کے مترادف ہے لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بہت کم پیش آتا ہے کیونکہ مرد پریزائیڈنگ افسر عموماً ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں‘۔
فہمیدہ جب بطور اے پی او کام کرتی تھیں تو وہ یاد کرکے بتاتی ہیں کہ ’پہلے نظام انتہائی خراب ہوتا تھا۔ میں 1983ء میں ضیاالحق حکومت میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ریزرو عملے میں شامل تھی۔ اس وقت ہمارے ساتھ انتہائی خراب رویہ برتا گیا۔ اگر آپ کو اپنا متعلقہ پولنگ اسٹیشن پتا ہو تو معاملہ اتنا خراب نہیں ہوتا لیکن اگر آپ ریزرو ہیں تو بطور خاتون آپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دیگر ریزرو اے پی اوز کے ہمراہ مجھے بس میں بٹھا لیا گیا اور پھر وہ بس ہم سب کو لے کر مختلف پولنگ اسٹیشنز میں گھومتی رہی اور پوچھتی رہی کہ کہیں عملے کی ضرورت تو نہیں۔ مجھے ان کا یہ رویہ انتہائی ناگوار گزرا کیونکہ ہمارے ساتھ غلاموں والا سلوک برتا گیا‘۔
اس سلسلے میں ہماری بات ثانیہ سے ہوئی جو 2016ء کے بلدیاتی انتخابات میں ریزرو رہ چکی ہیں، انہوں نے کہا کہ بطور ریزرو انہیں پریشان نہیں ہونا پڑا کیونکہ انہیں سیدھا اسی اسٹیشن بھجوایا گیا جہاں ان کی ضرورت تھی۔
ایمن نے کہا کہ ’ہم دعا کرتے ہیں ہماری انتخابی ڈیوٹی لگ جائے کیونکہ اگر ڈیوٹی نہ لگے تو تمام عملے کو ریزرو پر رہنا پڑتا ہے کہ کسی وقت بھی ڈیوٹی لگ سکتی ہے تو یہ غیر متوقع صورتحال زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے‘۔
خواتین انتخابی عملہ سب سے زیادہ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت نہ ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ اسی سلسلے میں فہمیدہ نے کہا کہ ’خواتین کی کوئی سیکیورٹی نہیں اگر آپ اے پی او ہیں اور رات 12 بجے پولنگ اسٹیشن میں آپ کام سے فارغ ہوتی ہیں تو آپ کو گھر چھوڑنے کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔ اب تو پھر بھی آن لائن ٹیکسی سروسز موجود ہیں لیکن پہلے تو یہ بھی موجود نہیں تھیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہوتی ہے۔ ہمیں ایسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میں جب 2018ء میں پی او تھی تو مجھے سٹی کورٹ رپورٹ کرنا تھا۔ سٹی کورٹ تک تو آپ کو سرکاری گاڑی لے کرجاتی ہے لیکن سٹی کورٹ میں کام ختم ہونے کے بعد آپ کیسے گھر جاتی ہیں یہ کسی کی ذمہ داری نہیں۔ اگر کسی خاتون کو پک کرنے والا کوئی نہ ہو تو ایسے میں وہ اکیلے رات 2 بجے گھر کیسے جائے گی؟‘
اس حوالے سے ثانیہ نے کہا کہ ’اگر پولنگ ڈے پر کسی ایجنٹ سے ہماری بحث ہوجاتی ہے تو ہمیں ایک خوف ہوتا ہے کہ کہیں باہر اس جماعت کے حامی جمع نہ ہوجائیں۔ اگر ایسا کبھی ہوجائے تو کنوینس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ نتائج پر اگر ہنگامہ ہوجائے تو مرد حضرات اپنا انتظام کرلیتے ہیں لیکن ایسے میں خواتین کا مسئلہ ہوتا ہے اس لیے ان کی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘۔
ثانیہ مزید کہتی ہیں کہ ’صبح سویرے انتخابی ڈیوٹی کے لیے نکلنا پڑتا ہے جبکہ اتنی صبح پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہمیں انتخابی مرکز پہنچنے میں کافی مشکل ہوتی ہے ایسے میں اگر ہمیں پک اینڈ ڈراپ دیا جائے تو ہمارے لیے انتخابی مرکز آنا آسان ہوجائے گا‘۔
فہمیدہ نے ایک اور دلچسپ نکتہ اٹھایا، ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین کے پولنگ اسٹیشن میں مردوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کوئی کھانا دینے آرہا ہوتا ہے تو کوئی کسی اور وجہ سے۔ ایک دفعہ ایک مرد بہانے سے میری کرسی کے ساتھ آکر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے شناختی کارڈز دے کر کہا کہ میں ان سے بیلٹ پیپر بھروں۔ یہ کام ضابطے کے خلاف تھا میں نے سختی سے منع کرکے انہیں باہر نکال دیا لیکن مجھے خوف تھا کہ ڈیوٹی ختم ہونے پر اس پارٹی کے حامی باہر ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ خیر ایسا ہوا نہیں لیکن خوف اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ ایسے میں ٹرانسپورٹ نہ ہونا تشویشناک ہے‘۔
انتخاب کے دن کئی ایسے غیر معمولی واقعات رونما ہوجاتے ہیں جو نہ صرف انتخابی عملے کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں بلکہ اپنی غیرمعمولی نوعیت کی وجہ سے یہ ان کی یادداشت کا مستقل حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں نے خواتین انتخابی عملے سے دریافت کیا تو انہوں نے دلچسپ واقعات ہم سے شیئر کیے۔ ان میں سے ایک واقعہ انہیں کی زبانی ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
’2013ء میں این اے 250 (جوکہ اب این اے 241 ہے) کے 33 پولنگ اسٹیشن میں دوبارہ پولنگ ہوئی، اس وقت میرے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا۔ ہمیں ایک دن پہلے انتظامات کے لیے پولنگ اسٹیشن بلایا گیا تھا۔ جہاں پولنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا، اس اسکول کی حالت انتہائی خستہ حال تھی۔ وہاں بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ نہیں تھی دیواریں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اسی دوران سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے ہمارے موبائلز ضبط کرلیے جس کے بعد گرل لگا کر ہمیں اندر بند کردیا گیا۔ ہم نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ڈیفنس میں پی ٹی آئی کی خاتون رہنما زہرہ شاہد کو قتل کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے رات ہمیں یہیں گزارنی ہوگی۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر کارکنوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور ہمیں فائرنگ کی آواز آرہی تھی۔
’ہم نے خوب احتجاج کیا کیونکہ وہ جگہ رہنے لائق نہیں تھی اور دیواروں کی خستہ حالت کے باعث فائرنگ سے عملے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ انتخابی عملے میں بھی خوف وہراس پھیلا ہوا تھا۔ ہم نے سیکیورٹی اہلکاروں سے کہا کہ کچھ بھی کرکے ہمیں یہاں سے نکالیں۔ اہلکاروں نے ہمیں نکال تو لیا لیکن ہمیں وہ قریبی ہاسٹل میں لے گئے جہاں ایک کمرے میں ہمیں بند کردیا گیا۔ صبح ہمیں منہ دھونے اور کپڑے بدلنے تک کا موقع نہیں دیا گیا اور یونہی وہ ہمیں سیدھا پولنگ اسٹیشن لے گئے۔ اتفاق سے اس دفعہ ہمارا پریزائڈنگ افسر بھی تجربہ کار نہیں تھا اور فارمز وغیرہ بھرنے میں خواتین اے پی اوز کو بہت کام کرنا پڑا۔ یوں ہمیں کام مکمل کرتے ہوئے رات کے 2 بج گئے۔ یہ انتہائی ناخوشگوار واقعہ تھا جسے میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ ہم قومی خدمت میں پیش پیش ہیں لیکن ہمیں کم از کم رات وہاں روکنے سے پہلے اعتماد میں لینا چاہیے تھا کیونکہ میں تو تھوڑی دیر کا کام سمجھ کر اپنے بچے گھر پر اکیلے چھوڑ کر گئی تھی۔ جبکہ ہم سے موبائل تک چھین لیے گئے تھے۔ ہم نے بہت مشکل سے اپنے گھر والوں کو اطلاع دی کہ ہم اس وقت کہاں موجود ہیں‘۔
اس بات کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کی وجہ سے خواتین انتخابی عملے کو اپنی سیکیورٹی کا کیا خوف لاحق ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی انتخابی عملہ پولنگ ایجنٹس کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔
فہمیدہ نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ’1971ء کے انتخابات میں جب ہر چیز ہاتھ سے لکھی جاتی تھی تب بھی میں نے پولنگ ایجنٹ کا کام کیا تھا لیکن جب میں نے بطور اے پی او کام کیا تو اندازہ ہوا کہ پولنگ ایجنٹس عملے کو کتنا پریشان کرتے ہیں۔
’سیاسی جماعتوں میں پولنگ ایجنٹس بنانے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ ناتجربہ کار نوجوانوں کو ایجنٹس بنا دیا جاتا ہے جنہیں سیاسی جماعتیں ٹریننگ بھی نہیں دیتیں۔ انہیں بھی ہماری طرح وقت سے پہلے تربیت دینی چاہیے کیونکہ ان کی وجہ سے پولنگ ڈے خراب ہوجاتا ہے۔ پولنگ ایجنٹس فارم بھرتے وقت بہت زیادہ جذباتی ہوجاتے ہیں، بات بات پر شور مچاتے ہیں اور بلاوجہ وہ سرکاری کام میں عمل دخل کرتے ہیں‘۔
ایمن کہتی ہیں کہ ’نہ ان کے پاس ووٹر لسٹیں درست ہوتی ہیں اور نہ ہی انہیں موقع محل کا کچھ پتا ہوتا ہے کہ کون سی بات کس وقت کرنی ہے۔ اس کام کے لیے تجربہ کار ہونا ضروری ہے لیکن سیاسی جماعتیں اتنی اہم ضرورت پر توجہ نہیں دیتیں۔ ٹریننگ تو دور کی بات بعض اوقات تو انہیں صبح اٹھا کر بتایا جاتا ہے کہ آپ کی الیکشن ڈیوٹی ہے تو ایسے انتخابی عمل نہیں چل سکتا پولنگ ایجنٹس کی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر پولنگ ایجنٹس اپنا کام ٹھیک سے کریں تو انتخابی عملے کی بہت سے مشکلات کم ہوسکتی ہیں‘۔
رافعہ* سرکاری ٹیچنگ کے شعبے میں 41 سال کا تجربہ رکھتی ہیں، انہوں نے اس بارے میں بتایا کہ اکثر پولنگ ایجنٹس کی ووٹر لسٹیں غلط ہوتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ غلط پولنگ اسٹیشن آتے ہیں جنہیں سمجھانے میں عملے کا وقت ضائع ہوتا ہے۔
انتخابات ہوں یا مردم شماری، شعبہِ تعلیم سے وابستہ سرکاری ملازمین قومی فریضے کی انجام دہی میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن چند خواتین اساتذہ کو اس پر تحفظات بھی ہیں۔
فہمیدہ نے مؤقف پیش کیا کہ ’الیکشن کمیشن انتخابی عملے کے طور پر سب سے زیادہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ملازمین کو تعینات کرتا ہے۔ بچوں کے امتحانات کی تاریخ کو نہیں دیکھا جاتا۔ جب آپ دس دفعہ تاریخیں بدلتے ہیں تو بچوں کے مستقبل کے لیے بھی تاریخ بدلی جاسکتی ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ آپ انتخابات چھٹیوں میں کروائیں۔ صرف تعلیمی شعبے پر بوجھ ڈالنے سے بچوں کو بہت نقصان ہوتا ہے، دیگر اداروں سے بھی ملازمین کو لیا جائے، صرف شعبہ تعلیم پر بوجھ نہ ڈالیں کیونکہ کبھی کبھی تو پورے اسکول کا عملہ انتخابی ڈیوٹی کی تیاری میں مصروف ہوتا ہے اور بچے اسکول میں صرف کھیلتے رہتے ہیں۔ اس سال بھی امتحانات کے قریب انتخابات ہیں جس کی وجہ سے جہاں بچوں کا نقصان ہورہا ہے وہیں ہماری ترقیاں بھی خطرے میں ہوتی ہے کیونکہ ہماری کارکردگی پر سوالات اٹھانے سے پہلے یہ نہیں سوچا جاتا کہ بحیثیت خواتین ہم پر ذمہ داریوں کا کتنا بوجھ ہوتا ہے‘۔
ایمن کا مؤقف اس سے برعکس تھا، وہ کہتی ہیں ’چھٹیوں میں ٹریننگ رکھ دی جاتی ہے جس سے تمام عملہ باؤنڈ ہوجاتا ہے اور ہم لوگوں کو کبھی بھی بلا لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم چھٹیوں میں کہیں گھومنے بھی نہیں جا پاتے۔ اس لیے ٹریننگ اگر کام کے دنوں میں اسکول کے اوقات کے بعد ہو تو یہ تمام ٹیچرز کے لیے اچھا ہوگا‘۔
وسائل کا مسئلہ تو پاکستان کے ہر شعبے میں ہی ہے۔ انتخابی عمل بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔ ہماری خواتین سے گفتگو ہوئی تو زیادہ تر سرکاری ملازمین نے اعزازیہ سے عدم اطمینانی کا اظہار کیا۔
فہمیدہ کہتی ہیں ’اعزازیہ کیا ملتا ہے؟ ہمیں جس طرح خوار ہونا پڑتا ہے اس حساب سے ایک دن کا ہمیں ایک ہزار ہی مل پاتا ہے جوکہ ہمارے آنے جانے کے کرائے میں لگ جاتا ہے۔ یوں ہمیں اپنی ڈیوٹی کرنے کا کوئی اعزازیہ نہیں ملتا‘۔
رافعہ کہتی ہیں ’جہاں تک اعزازیے کی بات ہے تو جو اعزازیہ ملتا ہے وہ ہماری محنت کے مطابق نہیں ہوتا۔ ہمیں کھانا بھی اچھے معیار کا نہیں دیا جاتا ہے اور پھر جب ہم اعزازیہ وصول کرنے جاتے ہیں تو کھانے کے نام پر زیادہ رقم کاٹ لی جاتی ہے جوکہ ناانصافی ہے۔ اگر آپ اعزازیہ بڑھا نہیں رہے تب بھی اگر آپ پک اینڈ ڈراپ دے دیں تو یوں بھی ہم مطمئن ہوجائیں‘۔
البتہ ثانیہ کہتی ہیں انہیں یہ کام پسند ہے اس لیے انہیں اعزازیہ کم ہونے کی کوئی شکایت نہیں۔
پولنگ ڈے پر لوگ بہت سی غلطیاں کرتے ہیں جن کی وجہ سے عملے کے کام میں اضافہ ہوتا ہے۔
فہمیدہ بتاتی ہیں کہ ’ووٹرز عموماً صوبائی اور قومی اسمبلی کے غلط ڈبوں میں اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ لوگوں کو نہ ووٹ کی اہمیت معلوم ہے اور نہ ہی انہیں آگاہی ہے۔ اس سلسلے میں بوگس ووٹ کو روکنا بہت ضروری ہے۔ اکثر اسٹیمپ گیلا ہوتا ہے تو کاغذ موڑنے سے پہلے ووٹرز کو چاہیے کہ پیلٹ پیپر پر نشان سوکھ جائے لیکن اسے فوری موڑ دینے کی وجہ سے نشان چھپ جاتا ہے اور جب ہم ووٹ گننے بیٹھتے ہیں تو دو دو نشان کی وجہ سے وہ ووٹ ضائع ہوجاتا ہے۔ یہاں لوگ ایک دو ووٹ سے بھی ہار جاتے ہیں ایسے میں انتہائی ضروری ہے کہ لوگوں کو شعور ہو کہ ووٹ ڈالنے کا درست طریقہ کار کیا ہے‘۔
رافعہ بتاتی ہیں کہ ’اکثر اے پی اوز کو لوگوں کو روکنا پڑتا ہے کیونکہ وہ پین یا اسٹیمپ اپنے ساتھ لے کر جارہے ہوتے ہیں۔ کبھی اگر ہم سے بھول ہوجائے تو کچھ لوگ موقع دیکھ کر بیلٹ پیپر ساتھ لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پولنگ ڈے کے اختتام پر ہمیں جب بیلٹ پیپر کی گنتی پوری کرنا ہوتی ہے تو اس وقت احساس ہوتا ہے کہ لوگ اپنی اس حرکت سے ہمیں کتنی تکلیف دیتے ہیں‘۔
فہمیدہ نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’اسی طرح عوامی نمائندے جہاں جلسوں میں رٹی رٹائی باتیں دہراتے ہیں، وہیں انہیں چاہیے کہ اپنے جلسوں میں ڈمی ووٹنگ کروائیں تاکہ ان کے ووٹرز کو علم ہوکہ ووٹ دینے کا درست طریقہ کیا ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کا ووٹر آپ کا ووٹ ضائع نہیں کرے گا۔ جگہ جگہ آپ امیدواروں کے بینرز لگا دیتے ہیں لیکن کہیں بھی آپ اپنے ووٹرز کو ووٹ ڈالنا نہیں سکھاتے جوکہ ایک المیہ ہے‘۔
فہمیدہ کہتی ہیں کہ ’خواتین بہت دیر سے ووٹ ڈالنے آتی ہیں۔ کچھ تو ووٹ ہی نہیں دیتیں اور جو دیتی ہیں وہ گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر دوپہر میں آتی ہیں اور ہم صبح 8 بجے سے فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ لوگوں کو شعور ہونا چاہیے کہ وہ صبح اٹھ کر ووٹ ڈالنے کیوں نہیں جاسکتے؟ یہ بھی ایک قومی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ لوگوں میں ووٹ کی اہمیت پیدا کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کریں‘۔
الیکشن کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات پر خواتین سے مؤقف طلب کیا تو انہوں نے اتفاق کیا کہ جب ان کے متعلقہ حلقوں میں انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں تو انہیں افسوس ہوتا ہے۔ فہمیدہ کہتی ہیں ’اتنے دنوں کی محنت کے بعد جب ہمیں یہ سننے ملتا ہے کہ دھاندلی کے الزام پر انتخابات منسوخ ہوگئے یا دوبارہ انتخابات ہوں گے تو بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ ہم نے اپنی طرف سے کام ایماندری اور قوم سے مخلص ہوکر کیا ہوتا ہے اور پھر یہ کہہ دینا کہ فلاں پولنگ اسٹیشن سے مسئلہ ہوا تو برا لگتا ہے۔ اگر دنیا کی طرح شفاف نظام چاہتے ہیں تو پھر اپنے طریقہ کار کو بھی بدلیں کیونکہ اس طرح شفافیت پر سوالات اٹھنے کا سلسلہ نہیں رک پائے گا‘۔
اس سوال پر ثانیہ نے بھی کہا کہ ’بےشک برا لگتا ہے کیونکہ عوام کے وسائل خرچ ہوتے ہیں اور ایسے میں دوبارہ بساط بچھانے کا مطالبہ درست نہیں‘۔
ہم نے ان متعلقہ خواتین سے پوچھا کہ آپ اپنے مسائل کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو کیا تجاویز دینا چاہیں گی تو فہمیدہ نے ایک بہت اہم نقطہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا ’یہ تو سب کہتے ہیں کہ خواتین کا پولنگ اسٹیشن قریب لگایا جائے لیکن میرے نزدیک الیکشن کمیشن کو سرکاری ملازمین کو انہیں کے اسکول یا علاقے میں تعینات نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسے میں لوگ فیور مانگنے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ جاننے والی ہیں اس لیے یہ مبینہ طور پر دھاندلی میں ہماری مدد کریں گی۔ ہم انکار تو کردیتے ہیں لیکن تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے کیونکہ علاقہ تو ہمارا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں خواتین کو قریب کے ہی ایسے علاقے میں تعینات کرنا چاہیے جو گھر سے قریب بھی ہو اور جاننے والے لوگ ان پر دباؤ بھی نہ ڈال سکیں۔ انہیں ایسے قریبی علاقوں میں تعینات کیا جائے جہاں ان کی شناخت نہ ہوسکے اور بہت سی ٹیچرز یہی چاہتی ہیں‘۔
انہوں نے الیکشن کمیشن سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اکثر ہمیں اسٹیمپ پیڈ سوکھے دیے جاتے ہیں جبکہ سیاہی بھی خراب ہوتی ہے جو کاغذ پر پھیلتی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ہمارا نظام پرانا ہے۔ لفافے سیل کرنے کا نظام بھی دقیانوسی ہے۔ اگر ہم بائیو میٹرک پر آجائیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہمیں انتہائی ہلکے پلاسٹک کے اسکیل دیے جاتے ہیں جو بیلٹ پیپر کاٹنے میں ہی ٹوٹ جاتے ہیں ایسے میں عملے کے پاس کوئی متبادل بھی موجود نہیں ہوتا۔ فرنیچر انتہائی خستہ حال ہوتا ہے، ہمیں چھوٹی سے اسکول بینچز پر پورا دن گزارنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ تمام چھوٹے چھوٹے معاملات انتہائی توجہ طلب ہیں‘۔
ثانیہ کہتی ہیں ’میری ریڑھ کی ہڈی میں درد تھا اور میری انتخابی ڈیوٹی لگا دی گئی تھی۔ اسکول کی بینچز پر اتنا وقت بیٹھنے کے بعد میرا درد بگڑ گیا تھا‘۔
فہمیدہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’سٹی کورٹ میں رپورٹ کرنے آنے والی خواتین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ 17 اور 18 گریڈ کی باوقار سینیئر خواتین پتھر پر بیٹھ کر انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ کم ازکم تھوڑی رقم خرچ کرکے ٹینٹ لگا کر خواتین کے بیٹھنے کا بہتر انتظام کرے۔ آپ ان سے اتنا اہم فریضہ انجام دینے کو کہتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ آپ ان کی مہمان داری بھی نہیں کرپاتے‘۔
تمام خواتین نے اتفاق کیا کہ الیکشن کمیشن کو خواتین کے لیے پک اینڈ ڈراپ یقینی بنانا چاہیے کیونکہ بہت سے مسائل پک اینڈ ڈراپ نہ ملنے کی وجہ سے شروع ہوتے ہیں۔
خواتین کو پک اینڈ ڈراپ دینے کے حوالے سے جب ڈان نیوز ڈیجیٹل نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور الیکشن کمیشن سندھ کے ترجمان نبیل ابڑو سے گفتگو کی تو انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انتخابی عملے کو ٹرانسپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ جہاں تک آر او آفس میں بیٹھنے کی جگہ فراہم کرنے کا تعلق ہے تو الیکشن کمیشن پوری کوشش کرتا ہے کہ خواتین کو ہم ہر طرح کی سہولیات فراہم کرسکیں‘۔
نبیل ابڑو نے کہا کہ ’رہائشی پتے کے قریب ڈیوٹی نہیں لگائی جاسکتی ہمیں ان کے اسکول کے پتے کے قریب ڈیوٹی اسی لیے لگاتے ہیں کیونکہ زیادہ تر سرکاری ملازمین اپنے اسکول کے قریب ہی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد ایک علاقے میں رہائش پذیر ہے تو ایسے میں تمام کو اسی علاقے میں تعینات نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں عملے کی الگ الگ جگہ ڈیوٹی لگانے سے بہتر یہی ہے کہ انہیں اپنے اسکولز کے قریب ہی تعینات کیا جائے‘۔
عوام کو ووٹ کی آگاہی فراہم کرنے کے حوالے سے نبیل ابڑو نے موقف اپنایا، ’ہم 5 سالوں کے دوران ویڈیوز کے علاوہ عوام کو ووٹ ڈالنے کا درست طریقہ سکھانے کے لیے سمینارز اور دیگر اقدامات کرتے ہیں، ساتھ ہی ہم تعلیمی اداروں میں بھی جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جاسکے۔ ہم ڈسٹرکٹ ووٹرز کمیٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈزر کے ہمراہ گھر گھر جا کر لوگوں کو آگاہی فراہم کرتے ہیں‘۔
خواتین کو ڈیوٹی سے معذرت کا حق دینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ڈیوٹی کرنا سرکاری ملازم کا فریضہ ہے۔ جس کی ڈیوٹی لگے گی اسے کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی کو کوئی طبی مسئلہ ہو اور وہ ڈیوٹی نہیں کرسکتا ہو تو اس سلسلے میں ہم صرف سندھ سروسز اسپتال کا میڈیکل سرٹیفکٹ ہی قبول کرتے ہیں۔ حکومت جس اسپتال کا پینل دیتی ہے، ظاہر ہے کہ ہم میڈیکل بھی اسی اسپتال کا قبول کریں گے‘۔
نبیل ابڑو نے ہمیں بتایا کہ ’ہم نے خواتین، اقلیتوں اور خواجہ سرا سمیت معاشرے کے دیگر پسماندہ طبقات کے لیے خصوصی ڈیسک بھی قائم کی ہے تاکہ وہ اپنی شکایات الیکشن کمیشن تک براہِ راست پہنچا سکیں‘۔
*رازداری کے لیے خواتین کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔
خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔