نقطہ نظر

شہرِ کراچی پر اشرافیہ کی گرفت سے محنت کش خواتین متاثر

شہر میں شہری ٹرانسپورٹ کے وسیع نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے خواتین مزدوروں کو علی الصبح اپنے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے جبکہ لمبی مسافت کی وجہ سے وہ اپنے گھر بھی دیر سے واپس آتی ہیں۔

موسمِ سرما میں علی الصبح اٹھ کر کام پر جانے سے پہلے شمعون اپنی نوزائیدہ بیٹی کے لیے دودھ گرم کرتی ہیں اور 5 افراد پر مشتمل اپنی فیملی کے لیے ناشتہ بناتی ہیں۔ اپنے کام کی جگہ جانے اور گھر آنے میں ہر روز وہ پیدل 16 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔ شمعون کا تعلق ہندو اقلیت سے ہے۔ وہ ایک مزدور ہیں اور کراچی کی تیز رفتار ترقی میں ان جیسی خواتین کا گزر بسر مشکل ہے۔

ایک طرف جہاں اس ساحلی شہر میں نئی سڑکوں کی تعمیر اور ٹرانسپورٹ کے نئے منصوبے شروع کیے گئے وہیں شہر کی آبادی کی بڑی تعداد کو ان نام نہاد ٹرانسپورٹ کے منصوبوں تک رسائی ہی حاصل نہیں ہے۔

شمعون کہتی ہیں کہ ’کبھی بھی ایسا وقت نہیں آیا جب کراچی میں ہر شخص کو شہر کی سڑکیں دستیاب ہوں۔ میرے والدین اور ان کے والدین بھی شہر میں پیدل سفر کرتے تھے پھر چاہے وہ طویل مسافت ہو یا چھوٹی۔ ہم لوگ سستی پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی نہیں دے پاتے تھے۔ میری برادری میں بہت سے لوگ اب بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے پیدل سفر کرتے ہیں‘۔

شہر کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ان سے سوال کیا گیا کہ ہر روز پیدل سفر کرنا کیسا رہتا ہے تو شمعون نے کہا کہ ’ظاہر ہے گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والوں کی نسبت پیدل چلنے والوں کے لیے یہ شہر آرام دہ اور محفوظ نہیں‘۔

اس کے علاوہ انفرااسٹرکچر کے اعتبار سے شہر کی سڑکوں کی حالت بھی خراب ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، سیوریج کا پانی سڑکوں پر موجود رہتا ہے جبکہ راہ گیروں کے لیے چلنے کا کوئی راستہ بھی مختص نہیں’۔

نقل و حرکت اور ٹرانسپورٹ تک رسائی

شہروں میں امیر طبقے کے لیے سہولیات کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر میں تبدیلی سے مجموعی طور پر مزدور اور محنت کش طبقہ متاثر ہوا ہے۔ تاہم ان طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناموافق اور تھکا دینے والا شہری نظام صرف نقل وحرکت اور سہولیات تک رسائی کو مشکل نہیں بناتا بلکہ یہ سماجی سیاست سے بھی منسلک ہے جس سے خواتین مزید پسماندگی کا شکار ہوتی ہیں۔

خواتین جن سماجی عناصر کا سامنا کرتی ہیں، ان میں پدر شاہی معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جہاں تمام راہ گیر خراب سڑکوں سے متاثر ہیں وہیں پیدل چلنے والی خواتین کو ہراسانی سمیت دیگر خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماہرِ ماحولیات اور موسمیاتی مسائل کی صحافی عافیہ سلام کہتی ہیں کہ ’انفرا اسٹرکچر میں بڑی تبدیلی، شہر میں اشرافیہ کی گرفت کو ظاہر کرتی ہے جس میں سماجی-اقتصادی طور پر نچلا طبقہ نشانہ بنتا ہے۔ شہر کی خوبصورتی کا کام غریبوں کو داؤ پر لگا کر کیا جاتا ہے جنہیں تعمیراتی کاموں کے لیے آنکھوں میں کھٹکتی چیز کی طرح ان کے گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے‘۔

ایسے کئی واقعات ہیں جہاں کراچی کی غریب آبادی کو شہر بسانے کے نام پر اپنے گھروں سے بے دخل کردیا گیا۔ ایک مثال 2020ء کا اربن فلڈ ہے جس کے بعد گجرنالے میں انسداد تجاوزات مہم کے نتیجے میں وہاں کے رہائشیوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اس سب میں غریب مزدور طبقے کی خواتین کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔

عافیہ سلام کہتی ہیں کہ ’نقل مکانی کے نتیجے میں مزدور طبقے کی خواتین ان مقامات سے دور ہوگئیں جہاں وہ کام کرتی ہیں۔ یوں ان کے لیے اپنے کام کی جگہ تک سفر کرنا مہنگا ہوگیا ہے تو انہیں اپنے کام پر جانے کے لیے دیگر ضرروی اخراجات کو کم کرنا پڑا ہے۔ مرد حضرات بائیکس یا بسوں میں سفر کرسکتے ہیں لیکن خواتین کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہے جبکہ ان کے پاس کوئی ذاتی سواری بھی نہیں ہے‘۔

مسافت میں اضافہ ان پر مالی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ شہر کے دوردراز علاقوں میں منتقل ہونے کی وجہ سے ان کی شہری اور سماجی زندگی میں بھی کافی حد تک تبدیلی آئی ہے۔

عافیہ سلام مزید کہتی ہیں کہ ’وہ اس جگہ سے واقف تھے جہاں وہ پہلے رہ رہے تھے۔ وہ ایک ایسے ماحول میں رہتے تھے جہاں وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے، کام پر جانے کے لیے خواتین ایک ساتھ سفر کرتی تھیں۔ جب انہیں نقل مکانی کرنا پڑی تو کوئی خاندان کسی علاقے میں چلا گیا تو کوئی کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہوگیا۔ نتیجتاً خواتین کا سماجی نیٹ ورک بھی ٹوٹ گیا۔ ایسے حالات میں ان کا تحفظ خطرے میں پڑ جاتا ہے جبکہ وہ ہراسانی اور لوگوں کی پسماندہ سوچ کا بھی نشانہ بن سکتی ہیں‘۔

شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے وسیع نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے خواتین مزدوروں کو علی الصبح اپنے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے جبکہ لمبی مسافت کی وجہ سے وہ اپنے گھر بھی دیر سے واپس آتی ہیں۔

مزید یہ کہ حالیہ نظام صرف موٹرسائیکل اور کار سواروں کے لیے ہی فائدہ مند ہے۔ راہ گیروں کو سڑک پر جگہ دینے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ راہ گیروں بالخصوص خواتین اور معذور افراد کے لیے کوئی ہموار راستہ شاید ہی موجود ہو جبکہ ان کے لیے پل بھی بہت کم ہیں۔

گھریلو مسائل

سول لائنز کلفٹن کے قریب رہائش پذیر محنت کش اور ہاؤس وائف کوثر کہتی ہیں کہ ’مجھے اب بھی وہ وقت یاد ہے جب اس شہر میں اتنی گرمی نہیں پڑتی تھی جتنی کہ گزشتہ چند سالوں سے پڑ رہی ہے۔ سمندری لہروں کی وجہ سے ہوا ٹھنڈی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب شدید گرمی میں میری فیملی کا دم گھٹتا ہے۔ کلفٹن اور ڈی ایچ اے میں، میں جہاں بھی جاؤں مجھے کئی منزلہ عمارتوں کے پروجیکٹس زیرِتعمیر نظر آتے ہیں‘۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ شہر کی شدید گرمی میں کوئی کیسے اپنے گھر میں رہ سکتا ہے۔ ’میرے جیسے مالی حالات والے لوگ اے سی کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ ہم بجلی سے چلنے والے پنکھے استعمال کرتے ہیں جو طویل لوڈشیڈنگ کے باعث چل نہیں پاتے‘۔

نئی عمارتوں اور پلازوں کی تعمیر، درختوں کی کٹائی کی وجہ سے کراچی میں ہریالی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ ہریالی نہ ہونے کی وجہ سے شہر کا قدرتی موسم بھی متاثر ہوا ہے۔ کراچی اربن لیب (کے یو ایل) جوکہ شہری منصوبہ بندی، سستی رہائش، ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مطالعہ اور ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے، اس کے مطابق گزشتہ 60 برسوں میں کراچی کے دن اور رات، دونوں اوقات کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔

کلائمیٹ جسٹس کی کارکن زیمل عامر کہتی ہیں ’شہروں کو بسانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحولیاتی اثرات مجموعی طور پر غریب طبقے پر مرتب ہوتے ہیں لیکن سب سے زیادہ بوجھ اس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین پر پڑتا ہے۔

’ایک بڑا مسئلہ گھریلو نظام میں افادیت اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ گرمیوں میں خواتین کی بڑی تعداد پنکھے اور پانی سے بھی محروم رہتی ہیں۔ وہ شدید گرمی میں بھی کھانا پکاتی اور گھر صاف کرتی ہیں۔ اور جب پنکھوں جیسی معمولی سہولیات کو استعمال کرنے کی باری آتی ہے تو مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے‘۔

طبقاتی فرق

شہر کے انفرا اسٹرکچر میں تبدیلی کے کام نے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس تقسیم کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقے کے لوگ ترقی یافتہ علاقوں میں منتقل نہیں ہوسکتے کیونکہ انہیں مراعات یافتہ لوگوں کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔ اکثر ان عمارتوں کو کچی آبادیوں کو مسمار کرکے تعمیر کیا جاتا ہے۔

عافیہ سلام اسے امیر طبقے کا قبضہ کہتی ہیں، ’کراچی 60 فیصد غیرقانونی بستیوں پر مشتمل ہے جو کچی آبادیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ تو جب کوئی منصوبہ ساز شہر کو ظاہری طور پر خوبصورت پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے ان چیزوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں وہ اپنے خیال میں بدصورت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچی آبادیوں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جاتا ہے‘۔

جب غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین دور دراز علاقوں میں رہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں تو وہ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ وہ ایسے علاقوں میں رہنے لگتی ہیں جہاں وہ محسوس کرتی ہیں کہ انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس سے ان کی ذہنی صحت اور جذبات پر بھی اثر پڑتا ہے جبکہ گھروں میں تنازعات بھی جنم لیتے ہیں۔

مزید یہ کہ شہروں کو بسانے کے نتیجے میں پانی، بجلی، گیس جیسی یوٹیلٹیز اور سروسز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھتا جاتا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد خواتین کی صحت اور یوٹیلیٹی کی ضروریات پر سمجھوتا کرلیا جاتا ہے۔

کوثر پر بھی یہ سب اثرانداز ہوا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’چوتھا حمل میری زندگی کا سب سے خراب وقت تھا۔ کلفٹن میں صحت کے مراکز اور فارمیسیز مہنگی ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے مالی حالات میری طرح کے ہوتے ہیں وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے پھر چاہے بھلا ہم امیر لوگوں کے ساتھ ایک ہی علاقے میں کیوں نہ رہ رہے ہوں۔

’مجھے ادویات لینے لیاری جانا پڑتا تھا۔ میرے بچے کی پیدائش کے وقت بھی میں بہت درد اور ٹراما سے گزری۔ اگر میں ایسے علاقے میں رہتی جہاں مجھے صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل ہوتی تو شاید مجھے اتنی مشکلات سے نہ گزرنا پڑتا‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

کنزا شکیل
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔