پاکستان

سندھ میں چائلڈ میرج قوانین غیر فعال، کم عمری کی شادیاں جاری

سندھ حکومت کے کسی بھی ادارے کے پاس چائلڈ میرج سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔

سندھ میں چائلڈ میرج یعنی کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے اگرچہ صوبائی حکومت نے ایک دہائی قبل ہی قانون بنا دیا تھا لیکن حقیقی معنوں میں آج بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔

سندھ حکومت کے کسی بھی ادارے کے پاس چائلڈ میرج سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق کسی ایک ادارے کو کم عمری کی شادی رکوانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

قانون کے مطابق ضلعی ماتحت عدالتوں، پولیس اور مانیٹرنگ کمیٹیوں کو کم عمری کی شادیاں روکنے میں کردار ادا کرنا تھا لیکن یہ تمام سندھ میں چائلڈ میرج کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

معروف وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن عدنان کھتری کا کہنا ہے کہ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 (sindh child marriage restraint act 2013) پرعمل درآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں کسی ایک ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ قانون میں اگرچہ بتایا گیا ہے کہ چائلڈ میرج کے شکار بچوں کے تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی (ایس سی پی اے) بنائی جائے گی اور اسے وزارت خواتین و بہبود آبادی کے تحت رکھنے کا کہا گیا ہے لیکن چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی دراصل وزارت سوشل ویلفیئر کے تحت چل رہی ہے، جس وجہ سے قانون پر من و عن سے عمل نہیں ہوسکا۔

عدنان کھتری کے مطابق صوبے بھر میں کم عمری کی شادی روکنے کے لیے قانون میں ضلع کی ماتحت عدالتوں اور پولیس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چائلڈ میرج کا علم ہونے پر مداخلت کرکے بچوں کو بازیاب کرواکر ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔

قانون دان کا کہنا تھا کہ چائلڈ میرج قانون میں اگرچہ صوبائی سطح کے علاوہ ضلعی سطح پر بھی مانیٹرنگ کمیٹیاں بنانے کا کہا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ بھی گزشتہ ایک دہائی سے غیر فعال ہیں اور تاحال سندھ میں کم عمری کی شادیوں کو روکا نہیں جا سکا۔

انہوں نے تجویز دی کہ سندھ حکومت چائلڈ میرج کو روکنے کے لیے کوئی خصوصی اتھارٹی، کمیشن یا ذیلی محکمہ بنائے جو پولیس، ضلعی انتظامیہ، قانون دانوں اور ضلعی انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے کر کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے کردار ادا کرے۔

سندھ اسمبلی نے سندھ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کو جون 2014 میں منظور کیا تھا اور صوبائی حکومت نے اس کے رولز کو دو سال کی تاخیر سے 2016 میں جاری کیا تھا۔

سندھ حکومت نے قیام پاکستان سے قبل انگریز دور میں بنائے گئے چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 میں ترامیم کرکے اور اس کا نام تبدیل کرکے نیا قانون منظور کروایا تھا۔

انگریز دور کے قانون میں کم عمری کی شادی کروانے والے ذمہ داروں کو انتہائی کم سزائیں شامل تھیں، جنہیں سندھ میں بنائے گئے قانون میں قدرے سخت کیا گیا تھا۔

چائلڈ میرج ایکٹ کے قواعد و ضوابط وزارت خواتین و بہبود آبادی کی جانب سے جاری کیے گئے تھے کیوں کہ کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ذمہ داری مذکورہ وزارت پر ڈالی گئی تھی۔

کم عمری کی شادی کو روکنے کےلیے قواعد و ضوابط بنائے جانے کے دو سال بعد 2018 میں پہلی بار چائلڈ میرج مانیٹرنگ کمیٹیاں بنائی گئیں اور صوبائی کمیٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری وویمن ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری کو سونپی گئی، اس میں پولیس، سوشل ویلفیئر اور وزارت قانون سمیت دیگر وزارتوں اور محکموں کے سیکریٹریز یا ڈائریکٹر جنرلز (ڈی جیز) بھی شامل تھے۔

صوبائی کمیٹی کے علاوہ سندھ کے مختلف اضلاع میں متعلقہ ڈپٹی کمشنرز (ڈی سیز) کی سربراہی میں بھی ضلعی مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں اور تمام کمیٹیوں میں صحافیوں، وکلا اور انسانی حقوق کے رہنمائوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

چائلڈ میرج ایکٹ کے رولز کے تحت حکومت سندھ کو کم عمری میں شادی کی کوشش کے دوران بازیاب کرائے جانے والے بچوں کی حفاظت اور رہائش کے لیے چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز بھی قائم کرنے تھے جو کہ حکومت کو بچوں کی حفاظت کے لیے موجود دوسرے قوانین کے تحت بھی بنانے تھے اور انہیں چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے تحت چلایا جا رہا ہے۔

سندھ چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 میں بچوں کی تشریح 18 سال سے کم عمر کے ہر فرد کے طور پر کی گئی ہے اور قانون میں کہا گیا ہے کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی کم سے کم عمر 18 برس ہوگی اور اس سے کم عمر افراد کو بچے تصور کیا جائے گا اور بچوں کی شادی پرلڑکی اور لڑکے کے والدین اور سرپرستوں کو تین سال تک قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ، دونوں میں سے کوئی ایک سزا یا پھر دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔

قانون کے تحت ضلعی عدالتوں کو چائلڈ میرج کے واقعات کا ازخود نوٹس لینے اور اس پر قانونی کارروائی کے اختیارات دیے حاصل ہوں گے جب کہ کوئی بھی شخص عدالتوں میں بھی کم عمر بچوں کی شادی رکوانے کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔

اسی طرح پولیس کو بھی چائلڈ میرج روکنے کے اختیارات دیے گئے ہیں اور وہ بھی ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد قانون کے تحت کارروائی کرکے بچوں کی شادیاں کروانے والے تمام افراد کو حراست میں لینے سمیت بچوں کو بھی اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔

قانون میں کم عمری کی شادی کروانے والے ملزمان کے اقدام کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا ہے، یعنی ان کی ضمانت نہیں ہوسکے گی لیکن اب تک کے سامنے آنے والے کیسز کا جائزہ لیا جائے تو حالات اس کے برعکس ہیں۔

سندھ کے نگران وزیر قانون عمر سومرو بھی حال ہی میں اس بات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ صوبے میں چائلڈ میرج قوانین پر عمل نہیں ہو رہا اور کسی بھی ادارے کے پاس چائلڈ میرج سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا اور معلومات دستیاب نہیں۔

سندھ میں چائلڈ میرج قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے معاملے پر حال ہی میں سندھ ہیومن رائٹس کمیشن (ایس ایچ آر سی) اور لیگل ایڈ سوسائٹی کی جانب سے کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں خطاب کرتے ہوئے نگران وزیر قانون و انسانی حقوق عمر سومرو نے اعتراف کیا کہ صوبے میں چائلڈ میرج پر پابندی کا قانون موجود ہونے کے باوجود سندھ بھر میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادیاں جاری ہیں۔

وزیر قانون و انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اسلام پہلا مذہب ہے جو شادی کو ایک قانونی حیثیت دیتا ہے، کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے اسکول، کالجز اور مدارس میں بھی آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

وزیر انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے بھی اس قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا، کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، اس کے بغیر ہم اس قانون پر عمل نہیں کروا سکتے اگرچہ فیڈرل شریعت کورٹ کے تحت بھی کم عمری کی شادیوں پر پابندی ہے۔

وزیر قانون کی طرح سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے سینیئر قانون منظور کھوسو کا بھی یہی خیال ہے کہ چائلڈ میرج قانون پر عمل درآمد کا تعلق صرف قانون سازی سے نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر اداروں اور افراد میں بھی تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔

ان کے مطابق قانون سے بچنے کے لیے دیہی علاقوں سمیت شہری علاقوں میں مذہبی احکامات اور ان پر عمل کا کہ کر کم عمری کی شادیاں کرائے جانے کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے اور زیادہ تر کیسز میں پولیس، ماتحت عدالتیں اور ضلعی انتظامیہ کوئی مداخلت نہیں کرتی۔

منظور کھوسو نے تجویز دی کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے مطابق مولویوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ نکاح کے وقت دلہا اور دلہن کا شناختی کارڈ دیکھے اور نکاح نامے میں ان کا اندراج کیے بغیر نکاح نہ کروائے، دوسری صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

منظور کھوسو کی بات سے ویمن ڈیولپمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر (ڈی ڈی) ولی محمد قریشی نے بھی اتفاق کیا اور کہا کہ نکاح خواں سمیت شادیاں رجسٹرڈ کرنے والے تمام افراد کو تربیت دی جانی چاہیے، انہیں اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ لڑکے اور لڑکی کا شناختی کارڈ دیکھے بغیر اور ان کی عمر 18 سال سے کم ہونے پر ان کی شادیاں رجسٹرڈ نہ کریں۔

ولی محمد قریشی نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ کم عمری کی شادیوں کو روکنے میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب ہے، کیوں کہ عام افراد کا بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ لڑکی کو پہلی ماہواری آنے کے بعد اس کی شادی کروا دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی اور غذائی تبدیلی کے باعث اب بچیوں کو 11 سے 12 سال کی عمر میں بھی ماہواری آسکتی ہے اور ایسے میں خصوصی طور پر دیہات اور غریب طبقے کے افراد اپنے بچیوں کی شادی جلد سے جلد کروانے کا سوچتے ہیں۔

چائلڈ میرج ایکٹ 2013 پر عمل درآمد نہ ہونے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ اب ان کی وزارت مذکورہ قانون کو نہیں دیکھ رہی، اب مذکورہ معاملہ سوشل ویلفیئر کے پاس چلا گیا ہے لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے قوانین پر منظم انداز میں عمل نہیں ہو رہا۔

چائلڈ میرج ایکٹ قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ سے متعلق جب سوشل ویلفیئر کے تحت چلنے والی چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر مانیٹرنگ امداد چنا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ قانون پر عمل درآمد کا کام رک گیا، البتہ سست ضرور ہوا ہے۔

امداد چنا کا کہنا تھا کہ چائلڈ میرج کو روکنے کی ذمہ داری حال ہی میں ان کی وزارت کو منتقل ہوئی ہے اور ابھی تک ان کی وزارت نے اس کے نئے رولز بھی نہیں بنائے۔

انہوں نے بتایا کہ رولز تقریبا تیار ہوچکے ہیں، ان کی منظوری کے بعد چائلڈ میرج کو روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے لیکن اس عمل میں مزید کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

مانیٹرنگ کمیٹیوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر امداد چنا نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کی مانیٹرنگ کمیٹیاں پہلے سے ہی بنی ہوئی تھی جو کہ متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں کام کر رہی تھیں، جن کا کام بچوں کے استحصال، چائلڈ لیبر اور چائلڈ میریج کو روکنا تھا جب کہ چائلڈ میرج کی کمیٹیاں پہلے وزارت خواتین و بہبود آبادی نے بنائی تھیں جو اب تقریباً غیر فعال ہو چکی ہیں لیکن نئے ضوابط بننے کے بعد ان کی دوبارہ تشکیل کی جائے گی۔

انہوں نےدعویٰ کیا کہ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی نے پولیس اور عدالتوں سمیت ضلعی انتظامیہ کی مدد سے چائلڈ میرج کے متعدد کیسز ناکام بنائے اور بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی زندگی بچائی۔

خواتین پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے متعارف کرائی گئی ہیلپ لائن 1094 کی انچارج تہمینہ کے مطابق انہوں نے مختلف اضلاع سے چائلڈ میرج کی شکایات کی کالز موصول ہونے پر پولیس اور مقامی انتظامیہ کی مدد سے متعدد بچوں کی کم عمری کی شادیاں رکواکر ان کی زندگی محفوظ بنائی۔

تہمینہ کا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگوں کو علم ہی نہیں کہ جب کسی کی کم عمری کی شادی ہو رہی ہو تو اس کی شکایت کہاں کرنی ہے اور ایسی شکایت کیوں کرنی چاہیے؟

ان کے مطابق عام افراد شادی کو اچھا عمل سمجھتے ہیں، اس لیے وہ بچوں کی شادی کو بھی قبول کرتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ شادیاں خاندان اور بچوں کے والدین کی مرضی سے ہو رہی ہیں تو ان کی شکایت کیوں اور کس سے کی جائے؟

انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ کم عمری کی شادیوں کو رکوانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلانے اور لوگوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

شادی کیلئے کم سے کم عمر کی حد کا قانون اسلام سے متصادم نہیں، شرعی عدالت

پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے، ماہرین

پاکستان میں کم عمری کی شادیاں، وجوہات اور اُن کے نقصانات