پاکستان

پمز میں اسلام آباد کا پہلا اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم

'اے آر سی سی' برطانوی حکومت، یو این پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) اور لیگل ایڈ سوسائٹی کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں اسلام آباد کا پہلا اینٹی ریپ کرائسز سیل (اے آر سی سی) قائم کردیا گیا تاکہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کو بروقت جواب اور تیز انصاف فراہم کیا جا سکے۔

وزارت قانون سے جاری بیان کے مطابق ’اے آر سی سی‘ برطانوی حکومت، یو این پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) اور لیگل ایڈ سوسائٹی کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے۔

یہ قدم انسداد عصمت دری (ٹرائل اینڈ انویسٹی گیشن) ایکٹ 2021 کے نفاذ کا حصہ ہے جس نے جنسی جرائم سے بچ جانے والوں کے لیے انصاف اور مقدمے سے پہلے، دوران اور بعد میں خدمات اور مدد کی فراہمی کو یقینی بنایا۔

قانون کے تحت تمام اضلاع میں انسداد عصمت دری کے کرائسز سیل کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ پسماندگان کو متعدد خدمات تک رسائی فراہم کی جائے جس میں ایف آئی آر کا اندراج، شواہد اکٹھا کرنا اور چھ گھنٹے کے اندر طبی معائنہ شامل ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری وزارت قانون و انصاف راجا نعیم اکبر نے اے آر سی سی کے قیام میں تمام شراکت داروں کے تعاون کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اے آر سی سی صنفی بنیاد پر تشدد کے اہم مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، ہم خصوصی کمیٹی برائے انسداد عصمت دری قانون اور بچوں کے حقوق کے قومی کمیشن کے ذریعے تمام صوبوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اسی طرح کے انسداد عصمت دری کرائسز سیل قائم ہوں اور پورے پاکستان میں مکمل طور پر فعال ہوں تاکہ متاثرین کی بروقت اور موثر مدد کو یقینی بنایا جا سکے۔

وزارت صحت کے سیکریٹری افتخار علی شلوانی نے کہا کہ بدنامی کی وجہ سے بہت سے زندہ بچ جانے والے اے آر سی سی کے پاس رپورٹ کرنے یا چلنے سے ہچکچاتے ہیں، حل کے طور پر ہم ٹیکنالوجی سے مدد لے سکتے ہیں، ایک چوبیس گھنٹے ہیلپ لائن یا ایک ایپ ہونی چاہیے جو زندہ بچ جانے والوں کو ان خدمات تک رسائی میں مدد دے سکے اور انسداد عصمت دری کے کرائسز سیلز کو وقف کیا جائے۔

انہوں نے اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے اپنے دفاع کی تربیت کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

خصوصی کمیٹی برائے انسداد عصمت دری قانون اور بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ کرائسز سیلز کا مقصد بروقت رسپانس فراہم کرنا اور انصاف کی فراہمی میں تیزی لانا ہے، اس کا مقصد ہر شہری، خاص طور پر خواتین کو عوامی مقامات پر دعویٰ کرنے اور جنسی تشدد کے خوف کے بغیر عوامی راستوں پر سفر کرنے کی اجازت دینا ہے۔

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے یو این ایف پی اے کے نمائندے ڈاکٹر لوئے شبانہ نے کہا کہ ریپ ایک بدصورت جرم ہے جو اس کا سامنا کرنے والوں کے لیے عمر بھر کے لیے درد اور نفسیاتی صدمے کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ انسداد عصمت دری کرائسز سیل جنسی تشدد کے جوابی فریم ورک پر مبنی پہلی عمارت کی اینٹ ہوگی اور اسے پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔

افتتاح کے موقع پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر پمز پروفیسر ڈاکٹر رانا عمران سکندر نے کہا کہ ہسپتال جنسی تشدد سے بچ جانے والوں کی ہر ممکن مدد اور نفسیاتی سماجی مدد کے ذریعے ان کے صدمے کو کم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے یقین دلایا کہ عصمت دری کے معاملات کو ایک جامع نقطہ نظر کے ساتھ اور پورے طبی معائنے کے دوران احترام، دیکھ بھال اور رازداری کے ساتھ نمٹا جائے گا۔