نقطہ نظر

سیاست دان، ماہرینِ قانون، کھلاڑی اور اداکار: لاہور سے انتخاب لڑنے والی ممتاز شخصیات

لاہور وہ شہر ہے جہاں 1970ء سے لے کر اب تک 6 وزرائے اعظم انتخاب لڑچکے ہیں اور اس مرتبہ بھی اسی شہر سے دو سابق وزرائے اعظم انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کو سیاست میں نمایاں مقام حاصل ہے اور سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے کئی قدآور اور ممتاز شخصیات نے نہ صرف اپنی سیاست کا آغاز یہاں سے کیا بلکہ اسی شہر سے انتخاب لڑ کر آئینی عہدوں تک پہنچے۔

لاہور وہ شہر ہے جہاں 1970ء سے لے کر اب تک 6 وزرائے اعظم انتخاب لڑچکے ہیں اور اس مرتبہ بھی اسی شہر سے دو سابق وزرائے اعظم 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ یہ دونوں سابق وزرائے اعظم سگے بھائی ہیں جبکہ تیسرے سابق وزیراعظم یعنی عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے ہیں۔

1970ء کے انتخابات میں نومولود پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے دیگر حلقوں کے علاوہ لاہور سے بھی انتخاب لڑا اور ان کا مقابلہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے بیٹے جسٹس جاوید اقبال سے ہوا۔ اس مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو کامیاب ہوگئے۔ بعد میں جسٹس جاوید اقبال لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے اور سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے۔ 1997ء میں جاوید اقبال مسلم لیگ (ن) کی طرف سے منتخب ہوکر سینیٹ پہنچے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی طرح اپنے پہلے انتخاب کے لیے لاہور شہر کو چنا اور وہ یہاں سے کامیاب بھی ہوئیں لیکن انہوں نے لاہور کی نشست کو چھوڑ دیا۔ اب ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری بھی لاہور سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کا تعلق لاہور سے ہے اس لیے وہ بھی لاہور سے منتخب ہوتے رہے۔ وہ اور ان کے بھائی سابق وزیر اعظم شہباز شریف بھی لاہور سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔ اب یہ دونوں بھائی اور سابق وزرائے اعظم ایک مرتبہ پھر لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقوں کے امیدوار ہیں۔ 1997ء کے انتخابات میں نواز شریف کے بھائی عباس شریف بھی پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے۔ نواز شریف کے سمدھی اسحٰق ڈار 1997ء میں رکن قومی اسمبلی بنے۔ شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز بھی لاہور سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ شہباز شریف جب وزیر اعلٰی پنجاب تھے تو وہ رکن قومی اسمبلی تھے۔ اسی طرح جب شہباز شریف قومی اسمبلی کے رکن تھے تو ان کے بیٹے حمزہ شہباز رکن پنجاب اسمبلی تھے۔

2018ء کے انتخاب میں شہباز شریف قومی اسمبلی اور حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنے۔ پھر شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو ان کے بیٹے مختصر مدت کے لیے وزارت اعلٰی پنجاب پر بھی فائز رہے۔ اب پھر وہ والد کی طرح انتخاب کے میدان میں اترے ہیں۔ اس مرتبہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لیے میدان میں ہیں۔ نواز شریف کی 2016ء میں سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد کلثوم نواز نے اپنے شوہر کی چھوڑی ہوئی نشست پر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئیں۔ البتہ کلثوم نواز اپنی بیماری کی وجہ سے قومی اسمبلی کی نشست کا حلف نہیں اٹھاسکیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے تین مرتبہ لاہور سے انتخاب لڑا جن میں سے دو مرتبہ انہیں شکست ہوئی جبکہ تیسری مرتبہ وہ لاہور سے بھی منتخب ہوئے لیکن انہوں نے نشست چھوڑ دی۔ اب چوتھی مرتبہ بھی لاہور سے امیدوار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی لاہور سے منتخب ہونے والے وزرائے اعظم میں شامل ہیں۔

تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے بھی لاہور سے انتخاب لڑا۔ 1990ء میں وہ نواز شریف کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے ساتھ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار تھے۔ نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز تحریک استقلال سے کیا تھا اور یوں 1990ء میں ان کا مقابلہ ان کی سابق جماعت تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان سے ہوگیا لیکن اصغر خان کامیاب نہ ہوسکے۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کا تعلق بھی لاہور کے نواحی علاقے سے تھا اور 1996ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو نگران حکومت تشکیل دی گئی وہ اس کے سربراہ تھے یعنی نگران وزیر اعظم نامزد کیے گئے۔ وہ لاہور شہر سے اسمبلی کے رکن بن کر دو مرتبہ اسپیکر قومی اسمبلی بنے لیکن دونوں مرتبہ اپنے عہدے کی معیاد مکمل نہیں کرسکے۔ ملک معراج خالد وزیر اعلٰی پنجاب کے منصب پر بھی فائز رہے۔

معراج خالد کی طرح سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔ ایاز صادق نے تحریک انصاف سے اپنی سیاسی اننگ کا آغاز کیا اور پہلا انتخاب عمران خان کے ساتھ مل کر لڑا۔ عمران خان قومی اسمبلی سے اور سردار ایاز صادق ان کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن دونوں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد ایاز صادق مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔ سردار ایاز صادق پہلی مرتبہ اپنی سابق جماعت کے سربراہ عمران خان کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی بنے جبکہ دوسری مرتبہ عمران خان کو شکست دے کر اسپیکر قومی اسمبلی بنے۔

سردار ایاز صادق نے بھی معراج خالد کی طرح دو مرتبہ اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن فرق یہ تھا معراج خالد دو مختلف ادوار میں بننے والی اسمبلی کے اسپیکر رہے جبکہ ایاز صادق نے ایک اسمبلی کی معیاد کے دوران دو مرتبہ اسپیکر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ سردار ایاز صادق کی کامیابی پر عمران خان نے اُن کا انتخاب چیلنج کیا تھا اور ایاز صادق کا قومی اسمبلی کا حلقہ اُن چار حلقوں میں سے ایک تھا جسے کھولا گیا اور اسی وجہ سے اس حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا اور سابق رکنِ پاکستان تحریکِ انصاف عبدالعلیم خان کو شکست دے کر وہ دوبارہ رکن قومی اسمبلی بنے اور ایاز صادق نے دوسری مرتبہ اسپیکر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

لاہور سے انتخاب لڑنے والے تین سیاست دان گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز رہے۔ ان میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے والد میاں اظہر بھی شامل ہیں۔ میاں اظہر نواز شریف کے دور میں گورنر پنجاب بنے پھر انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں جب نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ناراض سیاست دانوں نے ہم خیال کے نام سے ایک گروپ بنایا جس کے سربراہ میاں اظہر تھے، بعدازاں یہ مسلم لیگ (ق) بن گئی۔ 20 برس کے بعد میاں اظہر ایک مرتبہ پھر انتخابی میدان میں اترے ہیں اور لاہور سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔

1988ء کے انتخابات میں خواجہ احمد طارق رحیم (جو کے ٹی آر کے نام سے جانے جاتے ہیں) لاہور سے رکن قومی اسمبلی بنے اور بےنظیر بھٹو کی حکومت تحلیل ہونے تک کابینہ میں پارلیمانی امور کے وزیر رہے۔ صدر مملکت سردار فاروق لغاری نے نومبر 1996ء میں بےنظیر بھٹو کی حکومت ختم کی تو لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سروپ خان کی جگہ انہیں گورنر لگایا گیا۔

پیپلز پارٹی کے سابق گورنر سردار لطیف خان کھوسہ بھی اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں لاہور سے تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ ان کے علاوہ سلمان تاثیر وہ گورنر پنجاب ہیں جنہوں نے لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور 2008ء میں صدر آصف علی زرداری نے انہیں گورنر پنجاب مقرر کیا۔ سلمان تاثیر کے دور میں ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت معطل ہوئی اور گورنر راج لگا۔

1993ء کے انتخابات میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے نواز شریف کے خلاف اُن کے آبائی حلقے سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔ یہ دو مخلتف ادوار میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ غلام مصطفی کھر کو ’شیر پنجاب‘ کہا جاتا تھا اور نواز شریف کو اُن کے انتخابی نشان کی وجہ شیر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں غلام مصطفیٰ کھر نے اعلان کیا کہ نواز شریف سن لیں کہ ان کا مقابلہ اب اصلی شیر سے ہوگا۔ پنجاب سے غلام مصطفیٰ کھر نے کاغذات نامزدگی بھی داخل کروائے لیکن یہ دونوں آمنے سامنے نہیں آئے۔

نمایاں سیاسی جماعت کے سربراہ اور سیکریٹری جنرلز بھی لاہور سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کا آبائی صوبہ خیبر پختونخوا تھا لیکن انہوں نے 1993ء کا انتخاب لاہور کے سرحدی حلقے سے لڑا جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ پیپلز پارٹی کے چار سیکریٹری جنرل لاہور سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔

لاہور شہر سے کئی کھلاڑیوں نے بھی سیاسی میدان میں قدم رکھا اور الیکشن لڑا۔ ان میں عمران خان سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ قومی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان حفیظ کاردار اور فاسٹ باؤلر سرفراز نواز بھی شامل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حفیظ کاردار نے لاہور سے پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑا اور صوبائی کابینہ میں وزیر خوراک بنے۔ سرفراز نواز نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور منتخب ہوئے۔ ان کی اہلیہ فلم اسٹار رانی بھی ان کی الیکشن مہم کا حصہ رہیں۔

اوول کے ہیرو اور سابق قومی کرکٹر فضل محمود نے بھی لاہور سے ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے 1990ء میں لاہور سے انتخاب لڑا۔ اس طرح لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 95 میں ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان، سابق وزیر اعلی نواز شریف اور قومی ہیرو فضل محمود ایک دوسرے کے مدمقابل تھے لیکن کامیابی نواز شریف کے حصے میں آئی اور وہ بعد ازاں وزیر اعظم بنے۔

کرکٹ کی طرح ہاکی کے کھلاڑی بھی انتخابات کے میدان میں اترے۔ قومی ہاکی ٹیم کے اختر رسول نے نواز شریف کے ساتھ اپنی سیاست کا آغاز کیا اور لاہور سے رکن پنجاب اسمبلی بننے کے بعد صوبائی کابینہ کے وزیر رہے۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں سپریم کورٹ پر حملے کے جرم میں پارلیمانی سیاست سے نااہل ہوگئے۔ پھر مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کے بعد مسلم لیگ (ن) میں واپس آئے۔ قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی قاسم ضیا نے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور 2002ء میں رکن اسمبلی چنے گئے۔ اس کے بعد اسی اسمبلی میں اس کی تحلیل تک اپوزیشن لیڈر رہے اس وقت وزیر اعلٰی پرویز الٰہی تھے۔

ماہرین قانون اعتزاز احسن اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے بھی لاہور سے انتخاب لڑا۔ اعتراز احسن 1988ء میں بےنظیر بھٹو کی کابینہ میں پہلے وزیر قانون اور پھر وزیر داخلہ تھے۔ 2002ء میں اعتزاز احسن نے اے آر ڈی کی طرف سے اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ق) کے چوہدری امیر حسین اسپیکر بن گئے۔ اب سابق اٹارنی جنرل پاکستان لطیف کھوسہ اور ممتاز قانون دان سلمان اکرم راجہ بھی لاہور سے امیدوار ہیں۔

شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی لاہور سے انتخابی سیاست میں قسمت آزمائی۔ لاہور کے علاقے گارڈن ٹاؤن میں ٹی وی اداکار قوی خان کے علاوہ ٹی وی کے مشہور پروگرام نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز نے بھی انتخاب لڑا۔ قوی خان نے 1985ء کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے لیکن طارق عزیز مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنے۔

اس طرح سیاست دانوں سے لےکر ماہرین قانون، کھلاڑیوں اور اداکاروں تک مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد لاہور سے میدانِ انتخاب میں اتر چکے ہیں۔

عباد الحق

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔