نقطہ نظر

’بونیر کی بیٹی‘: پہلی ہندو امیدوار ڈاکٹر سویرا پرکاش کے بلند عزائم

سویرا پراکاش اقلیتی برادریوں کی نمائندہ بننا چاہتی ہیں، کہتی ہیں 'میں بین الاقوامی فورمز پر ان کی آواز بننا چاہتی ہوں اور پی پی پی کے منشور کے تحت ان کی مساوی نمائندگی چاہتی ہوں'۔

ڈاکٹر سویرا پرکاش ضلع بونیر سے صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست کے لیے انتخابات میں کھڑی ہونے والی پہلی ہندو امیدوار ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کل انہیں میڈیا کی خوب توجہ مل رہی ہے۔ ایسے روایت پسند علاقے سے کہ جہاں خواتین میں شرحِ خواندگی صرف 18 فیصد ہے، ہم خواتین کو بہت کم ہی سیاست میں متحرک دیکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ نوجوان ڈاکٹر اس روایت کو بدلنا چاہتی ہیں۔

25 سالہ سویرا پرکاش پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر جبکہ بونیر میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے خواتین ونگ کی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ پی پی پی دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے خیبرپختونخوا میں جنرل نشست کے لیے سویرا پرکاش کو موقع دے کر تاریخ رقم کی ہے جس سے عام انتخابات میں خواتین کی شراکت کا عنصر نمایاں ہوگا۔

سابق سینیٹر اور پی پی پی خیبرپختونخوا کی خواتین ونگ کی صدر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ وہ ڈاکٹر سویرا سے گزشتہ سال بونیر میں ملی تھیں اور انہیں وہ پارٹی ٹکٹ کی اہل لگیں۔ انہوں نے پارٹی ٹکٹ دینے سے قبل انہیں خواتین ونگ بونیر کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا۔

روبینہ خالد کہتی ہیں کہ ’ہماری جماعت نے ہمیشہ ان خواتین کی حوصلہ افزائی کی ہے جوکہ جنرل نشستوں سے انتخابات میں حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر کرتی ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت نے بےنظیر انکم سپورٹ اور لیڈی ہیلتھ ورکر جیسے پروگرام متعارف کروائے اور ساتھ ہی خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی بہبود کے لیے قانون سازی بھی کی۔ 2024ء کے انتخابات کے لیے پی پی پی نے خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 4 خواتین امیدواروں کو اپنی قسمت آزمانے کا موقع دیا ہے۔ ان میں این اے 24 سے شازیہ تماس خان، این اے 16 سے نورالعین، این اے 38 سے مہر سلطانہ جبکہ این اے 39 سے فرزانہ شیرین شامل ہیں۔

اسی طرح پی پی پی نے خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لیے بھی خواتین کو میدان میں اتارا ہے جن میں صوابی سے غزالہ خان، مانسہرہ سے ساجدہ تبسم، ہری پور سے شائستہ رضا، مردان سے انیلہ شہزاد اور بونیر سے سویرا پرکاش شامل ہیں۔ سویرا پرکاش بطور انتخابی امیدوار توجہ کا مرکز اس لیے بنی ہوئی ہیں کیونکہ ماضی میں اس علاقے سے مذہبی جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوتی آئی ہیں۔ تاہم ضلع کے رہائشیوں بالخصوص حلقے کے لوگوں نے ڈاکٹر سویرا کو بطور امیدوار کھلے دل سے قبول کیا ہے۔

سویرا پراکاش کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ ماہ ڈان میں میرے حوالے سے مضمون شائع ہونے کے بعد مجھے اس قدر مثبت عوامی ردِعمل کی توقع نہیں تھی‘۔ وہ 25 دسمبر 2023ء کو شائع ہونے والے ڈان کے اس مضمون کی بات کررہی تھیں جسے پاکستان اور بھارت میں خوب توجہ ملی اور انہیں انتخابات میں اپنی امیدواری کے حوالے سے گفتگو کرنے کے لیے مختلف ٹی وی شوز میں بھی مدعو کیا گیا۔

وہ بتاتی ہیں ’میں نے بونیر کی نمائندگی کی تھی اور میں نے دیکھا کہ اس مضمون سے بونیر میں مثبت تبدیلی آئی‘۔ وہ اس ضلع سے پہلی خاتون امیدوار کے طور پر ملنے والی میڈیا کی توجہ پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے حلقے کی خواتین زیادہ پُرامید اور پُرجوش ہیں کیونکہ وہ ان سے براہِ راست بات کرتی ہیں اور ساتھ ہی اپنی جیت پر وہ ان کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرواتی ہیں۔

سویرا پرکاش کے والدین بھی طب کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مذہبی اعتبار سے ان کے والد ہندو جبکہ ان کی والدہ روس سے تعلق رکھنے والی مسیحی ہیں۔ سویرا پرکاش کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے تمام عقائد پر یقین رکھ کر بڑی ہوئی ہیں جبکہ وہ مختلف زبانوں میں بھی بات کرسکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ہمیشہ بونیر کی مسلم اکثریت سے عزت ملی یہی وجہ ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ یہاں انہیں سپورٹ کیا جائے گا۔ ان کا ماننا ہے کہ عملی سیاست میں حصہ لینے سے بونیر کی مسلم خواتین کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ انتخابی مہم میں ان کی مدد کررہی ہیں۔

سویرا پرکاش نے اعتراف کیا کہ ابتدا میں وہ انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے گھبراہٹ کا شکار تھیں اور وہ پریشان تھیں کہ کہیں ان کا انتخابات میں کھڑا ہونا روایتی اصولوں کی خلاف ورزی نہ سمجھا جائے۔ تاہم بہت حد تک پدرشاہی معاشرے میں انہیں ملنے والے مثبت ردِعمل سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ 27 دسمبر 2023ء کو بےنظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سویر پراکاش کے پہلے عوامی خطاب کو بھی بھرپور پزیرائی ملی۔ وہ بےنظیر بھٹو کو اپنا رول ماڈل کہتی ہیں جبکہ وہ پی پی پی کی دیگر خواتین رہنماؤں سے بھی کافی متاثر ہیں۔

سویرا پراکاش کہتی ہیں ’میں متوسط طبقے اور اقلیت سے تعلق رکھتی ہوں لیکن بونیر کے مختلف بڑے قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ مجھے بونیر کی بیٹی کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ مجھے مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی حوصلہ دیا ہے جبکہ مذہبی جماعتیں بھی میرا ساتھ دیتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے رکن نے میری انتخابی مہم کے بینرز کے اخراجات اٹھائے اور پرنٹنگ پریس کے مالک سے کہا کہ میرے تمام اخراجات وہ اٹھائیں گے‘۔

سویرا پرکاش اقلیتی برادریوں کی نمائندہ بننا چاہتی ہیں، وہ کہتی ہیں ’میں بین الاقوامی فورمز پر ان کی آواز بننا چاہتی ہوں اور پی پی پی کے منشور کے تحت ان کی مساوی نمائندگی چاہتی ہوں‘۔ ان کے والد ڈاکٹر اوم پراکاش جوکہ 37 سال سے مقامی رہنما کے طور پر پی پی پی سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں پی پی پی نے نچلی سطح کے لوگوں کو نمائندگی دینے کے اپنے وعدے کو پورا کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’میری بیٹی میری سیاسی سرگرمیوں سے سیکھ رہی تھی اور آج وہ سیاسی میدان میں اتر چکی ہے۔ مجھے اس کی بہادری اور جدوجہد پر یقین ہے۔ ہم نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے خوابوں پر یقین کیا اور اس نے اپنے خوابوں کو سچ کر دکھایا‘۔

سویرا پرکاش کے ہم جماعت ڈاکٹر روشن یاد کرتے ہیں کہ کس طرح ایبٹ آباد حویلیاں کے ایک پیریفری اسپتال میں کی گئی ہاؤس جاب سویرا پرکاش پر اثرانداز ہوئی۔ اس اسپتال میں اہم آپریٹنگ سہولیات اور طبی سامان کا فقدان تھا جبکہ تشویشناک حالت میں لائے گئے مریضوں کو دوسرے شہر میں ریفر کردیا جاتا تھا۔ اس وقت سویرا پراکاش نے نظام کو تبدیل کرنے اور غریبوں کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

الیکشن ایکٹ 2017ء میں خواتین، معذور افراد، خواجہ سرا اور مذہبی اقلیتوں سمیت معاشرے کے پسماندہ طبقات کی سیاسی نمائندگی بڑھانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پاکستان کے ادارہِ شماریات کے مطابق ملک کی 7.66 فیصد آبادی مذہبی اقلیت ہے جن میں سے 1.91 فیصد خیبرپختونخوا میں آباد ہے۔

بونیر کے صحافی فضل عزیز بونیری کہتے ہیں کہ وقت نے خواتین کو موقع دیا ہے کہ انہیں سیاست میں مساوی مواقع مل سکیں اور وہ بطور رہنما اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ’ڈاکٹر سویرا پرکاش کی طرح بہت سی متحرک سیاسی کارکن ہیں جوکہ مردوں سے زیادہ بہتر کام کرسکتی ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سویرا پراکاش جیتیں گی اور اقلیت کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریت کے لیے بھی کام کریں گی‘۔


یہ مضمون 14 جنوری 2024ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

عمر باچا

عمر باچا ایک نوجوان صحافی ہیں۔ گزشتہ 9 سال سے شمالی علاقہ جات کی رپورٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ تعلیم, ثقافت اور سیاحت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ 2016 سے روزنامہ ڈان کے ساتھ ضلعی نمائندہ شانگلہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔