’ملے پارٹیوں کو نشاں کیسے کیسے‘
ایک ادارہ ہے الیکشن کمیشن، ویسے تو ’ہیں اور بھی دنیا میں کمیشن بہت اچھے‘، جیسے وہ کمیشن جو کھایا جاتا ہے اور دوسرا جو اس کھانے کی تحقیقات کے لیے بنایا جاتا ہے اور پھر پتا ہی نہیں چلتا ’کہاں سے آیا کدھر گیا وہ‘، الیکشن کمیشن کو کھایا نہیں جاسکتا، البتہ کھانے پکانے میں اس کی اہمیت وہی ہے جو آگ کی، یعنی اس کے بغیر نہ کھچڑی پک سکتی ہے، نہ دال گَل سکتی ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ الیکشن کمیشن ہے تو انتخابات ہی کرواتا ہے، نکاح تو کروانے سے رہا۔ یہ ادارہ دیگر انتخابی فرائض انجام دینے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات بھی دیتا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ سیاسی جماعتوں کو ’آ میری رانی لے جا چَھلّا نشانی‘ گاکر بلایا اور نشانات تھمادیے جاتے ہوں گے۔ نہیں بھئی، پوری سنجیدگی اور بڑے اہتمام سے یہ فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔ رانی کو چھلّا نشانی دے دی سو دے دی، مگر الیکشن کمیشن کے ’راجا‘ دی ہوئی نشانی واپس بھی لے سکتے ہیں، ’بَلّا نشانی‘ سامنے کی مثال ہے۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو عطاکردہ انتخابی نشانات کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں بَلّا بھی غائب ہے اور بَلّا گھماکر انتخابی میدان میں اُترنے کو تیار پاکستان تحریک انصاف بھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو نشان بانٹتے ہیں وہ نام ونشان مٹانے کی بھی ٹھان سکتے ہیں۔ انتخابی نشان کوئی پیار کی نشانی تو ہے نہیں کہ اک شہنشاہ نے بنواکے حسیں تاج محل، دنیا والوں کو محبت کی نشانی دے ہی دی ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے دنیا والوں کی ہوگئی، ہمیں یقین ہے کہ اگر آج شاہ جہاں صاحب ہوتے اور تاج محل پاکستان میں ہوتا تو کسی بھی ’ٹھیکے دار‘ کے بہلانے پھسلانے پر تاج محل گراکر پلاٹنگ کرچکے ہوتے۔
خیر ذکر تھا بَلّے کا۔ الیکشن کمیشن کی فہرست میں مزے کی بات یہ ہے کہ بلا نہیں مگر بلے باز موجود ہے، جو نشان بنا ہے ’پاکستان تحریک انصاف نظریاتی‘ کا، یہ سوال مت پوچھیے گا کہ پی ٹی آئی نظریاتی کہاں نظر آتی ہے؟ یہ نظر آئے نہ آئے اسے ملنے والا بلے باز کا نشان انتخابی پرچی پر نمایاں طور پر دکھائی دے رہا ہوگا، اور اگر بلّا بڑا اور ’باز‘ چھوٹا ہوا، تو بہت سے رائے دہندگان اس نشان کو بَلّا سمجھنے سے باز نہ آئیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرست میں بعض نشانات اور ان سے متعلق جماعتوں کا تعلق بڑا دل چسپ اور معنی خیز ہے۔ یہ فہرست دیکھ کر خیال آتا ہے ’ملے پارٹیوں کو نشاں کیسے کیسے‘۔
ایک ہے ’پاکستان امن تحریک‘ جسے میزائل کا نشان عطا کیا گیا ہے۔ یہ نشان دے کر گویا امن والوں کی سیاست کا اُڑایا ہے مذاق۔ ہمیں لگتا ہے کہ امن تحریک کے امیدوار اس نشان پر شرمندہ شرمندہ سے اس طرح کے نعرے لگارہے ہوں گے، ’بھائیو! ہم ہیں امن کے قائل ہے نشاں خواہ مخواہ ہی میزائل‘۔ ویسے وہ شرمندہ ہوئے بغیر یوں بھی کہہ سکتے ہیں،’امن کی کوشش گر ہوئی زائل تو ہم چلا دیں گے اپنا میزائل‘۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو ملنے والا تیر تو پرانی بات ہوگئی، یوں بھی بغیر کمان کا تیر بس کمر کھجانے ہی کے کام آسکتا ہے اور جب سے آصف زرداری صاحب نے پارٹی کی کمان سنبھالی ہے بے کمان کے تیر کی اس افادیت سے صرف سندھ والے فیض یاب ہورہے ہیں۔
کچھ اور جماعتوں کو جو نشان ملے ہیں وہ عہد جدید کا سامان جنگ ہیں، جیسے ایک جماعت تحریک لبیک اسلام کو توپ ملی ہے۔ اس جماعت کے کارکن نعرہ لگا سکتے ہیں’توپ ہی Hope ہے’، لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ اگر ’کہیں‘ اس نعرے پر لبیک کہنے کی تحریک جاگ اٹھی تو انتخابات کی تاریخ تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ اسی طرح متحدہ علما مشائخ کونسل آف پاکستان کو بہ طور نشان لڑاکا طیارہ ملا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے لڑاکا طیارہ کسی سیاسی جماعت کے کس کام کا؟ ہمارا مشورہ ہے کہ متحدہ علما مشائخ کونسل الیکشن کمیشن کو عرضی بھیجیے، ’حضور! لڑاکا طیارے کے بجائے ہمیں جہانگیرترین کا طیارہ عطا کردیجیے، تو ہم ایک بھی نشست جیتے بغیر اپنی حکومت بنالیں گے‘۔
ایک اور جماعت نظریہ پاکستان کونسل کو جنگی ٹینک دیا گیا ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ بذریعہ ٹینک پاکستان میں سب کچھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے، لیکن نظریہ پاکستان سے منسوب سیاسی جماعت کو یہ نشان دے کر شاید بتایا گیا ہے کہ ٹینک بھی سیاسی ہوتے ہیں۔ تحریک تحفظ پاکستان کے حصے میں ریوالور آیا ہے۔ اب آپ ہی کہیے، کہاں پاکستان کے تحفظ کا دعویٰ اور کہاں ننھا مُنا سا ریوالور، یہ تو الیکشن کمیشن نے صاف صاف کہہ دیا ’تم سے نہ ہوپائے گا‘۔
استحکام پاکستان تحریک کا نشان ہمیں سب سے زیادہ پسند آیا، اس کا نشان ہے سِکّے۔ جتنے بھی نشانات ہیں ان میں پُرکشش ترین یہی نشان ہے۔ سِکّوں کو پیار سے ریزگاری کہتے ہیں، جو اب بھکاری بھی نہیں لیتے، مگر کچھ بھی ہے سِکّہ زر کی علامت ہے اور سکّہ رائج الوقت ہو تو اس کا برتنا بڑا فائدہ دیتا ہے، جیسے ان دنوں ’نو مئی کی مذمت کرتا ہوں‘ کا نعرہ سکہ رائج الوقت ہے، جس سے اجتناب برا وقت لاسکتا ہے۔ اگر یہ جماعت استدعا کرکے اپنا نشان کھوٹے سکے لے لیتی تو کام یابی یقینی تھی کہ ہمارے ہاں کھوٹے سِکے چناؤ کی منڈی میں خوب چلتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک ’پاکستان تحریک ایمان‘ بھی ہے، جسے ہُدہُد کا نشان ملا ہے۔ ہُدہُد کے بارے میں ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار جوڑی بناتا ہے اور رفیق حیات کے مرجانے کے بعد تنہا ہی زندگی گزار دیتا ہے۔ اگر تحریک ایمان ہُدہُد کی اس خاصیت کی تشہیر کرے تو ہمیں یقین ہے کہ خواتین کی اکثریت اس نشان پر مُہر ثبت کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اتنے ووٹ مل جائیں کہ مخالفین اسے تحریک ایمان کی بے ایمانی سمجھیں اور اس جماعت کا خدا کی قدرت پر ایمان اور بڑھ جائے۔
رابطہ جمعیت علمائے اسلام کو ملی ہے انگوٹھی۔ اس نشان میں کنواروں کے ارمان مچلتے دکھائی دیتے ہیں۔ رابطہ جمعیت علمائے اسلام کو چاہیے اس نکتے کو اپنے منشور کا حصہ بنالے کہ وہ جیت گئی تو ہر کنوارے کی انگلی میں انگوٹھی ہوگی۔ پاکستان تحریک سچ کے ساتھ دل پشوری کرتے ہوئے اسے مگرمچھ کا نشان سونپ دیا گیا ہے۔ ہوگا یہ کہ سچ کی علم بردار اس جماعت کے راہ نما عوام کے مصائب پر اظہارغم فرمائیں گے تو عوام کو اس کا انتخابی نشان دیکھ کر مگرمچھ کے آنسو نظر آئیں گے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے تحریکِ سچ کو یہ نعرہ لگانا چاہیے ’نشان ہے مگرمچھ آنسو ہمارے مگر سچ‘۔
تحریک تبدیلی نظام پاکستان کا نشان ہے ہاتھی، مگر پتا نہیں یہ سیاہ ہاتھی ہے یا سفید ہاتھی۔ اب تو تبدیلی کا نام سنتے ہی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کا سچ ہوجانے والا مقولہ دماغ میں گونجنے لگتا ہے۔ ایسے میں تحریک تبدیلی نظام پاکستان لاکھ کہے کہ ہاتھی سب کا ساتھی، کوئی یقین نہیں کرے گا اور اگر کسی نے ایک مشہور نغمہ یاد کرتے ہوئے پوچھ لیا ’کیا مظلوموں کا بھی ساتھی ہے؟‘ تو نہ اقرار کرسکے گی نہ انکار۔
تبدیلی چاہنے والی ایک اور جماعت تبدیلی پسند پارٹی کی انتخابی علامت بنا ہے تاج۔ بھلا بتائیے کہاں تبدیلی کا انقلابی جذبہ کہاں تاج جیسی بادشاہت کی نشانی۔ ان تبدیلی والے بھائیوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے انتخابی نشان میں تبدیلی لائیں، اور الیکشن کمیشن سے درخواست کریں کہ کچھ اور نہیں تو کم ازکم اچھلتا ہوا تاج ہی دے دیجیے۔
بہ ہرحال جس کو جو نشان ملنا تھا مل گیا۔ اب سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اپنے حامیوں کو اپنا اپنا انتخابی نشان اچھی طرح ازبر کروادیں اور جو بات استاد قمرجلالوی نے نامہ بر سے خط کے لیے کہی تھی وہ ان کے شعر میں تبدیلی کے ساتھ رائے دہندگان کو یوں سمجھادیں
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔