پاکستان کی قیادت ایک گومگو کی کیفیت میں ہے- کیا اسے ان قیدیوں کی پھانسی کی سزا پر عائد عارضی التوا کو قائم رکھنا چاہئے جسے پی پی کی حکومت نے جون 2008 سے نافذ کر رکھا ہے؟
جون میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد ہی وزیراعظم نواز شریف سزائے موت کو بحال کرنا چاہتے تھے غالبا یہ بتانے کےلئے کہ وہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا قوی ارادہ رکھتے ہیں- ان کا یہ معصومانہ خیال ہے کہ پھانسی کی سزا سے جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے-
اب وہ تذبذب میں ہیں- کیا انسانی حقوق کی تنظیموں اور پھانسی کی سزا کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے احتجاج نے ان کا ارادہ کمزورکردیا ہے؟
یا پھر ان کی سوچ میں یہ تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب طالبان نے یہ دھمکی دی کہ اگر سکھر جیل میں قید لشکر جھنگوی کے دو اراکین کو فیصلہ کے مطابق اگست میں پھانسی کی سزا دی گئی تو وہ قتل وغارت کا بازار گرم کردینگے؟
وجہ خواہ کچھ بھی ہو، صدر آصف علی زرداری نے وزیراعظم کو گذشتہ ماہ میں ہونے والی ملاقات میں اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ 9 ستمبر تک حالات کو جوں کا توں برقرار رکھیں جب نئے صدراپنا عہدہ سنبھالیں گے-
پی ایم ایل ن کا قد کاٹھ اس وقت بڑھیگا جب وہ سزائے موت کے تعلق سے ایک اصولی موقف اختیار کرے- حقیقت تو یہ ہے کہ بین الاقوامی رائے عامہ عدل و انصاف اور اصلاح کی بنیاد پر سزائے موت کو ختم کرنا چاہتی ہے- اب یہ بات بڑی حد تک ثابت ہو چکی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں قاتلوں کو پھانسی پر لٹکانے سے جرائم کی شرح میں کمی نہیں ہوتی-
مجھے یہ دیکھ کر خاصی مایوسی ہوئی ہے کہ جو لوگ سزائے موت کے سخت خلاف تھے اب امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اپنے موقف سے ہٹ رہے ہیں- ان کے نظریات میں تبدیلی کی وجہ انتقام اور ڈر ہے نہ کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے کی کوئی سوچی سمجھی حکمت عملی-
یہ سوچ خطرناک ہے- اگر انتقام کی بنیاد پر پالیسیاں بنائی جائیں تو پھر پاکستانی معاشرہ جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مزید تیزی سے ٹوٹنے لگے گا- اسی لئے ہمارے لئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہم سزائے موت کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں- میری رائے میں اور دیگر باتوں کے علاوہ اہم وجہ ہمارے ملک کا ناقص نظام عدل ہے- اس بات کا پتہ چلانا کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ کسی سزا یافتہ قیدی کو کہیں غلط سزا تو نہیں دے دی گئی-
ڈیموکریٹک کمیشن فار ہیومن ڈیولپمنٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ کرمنل جسٹس سسٹم (جرائم کی سزا دینے کا قانون) میں کئی ایک نقائص موجود ہیں مثلاً، ناکافی تحقیق، اعتراف جرم کروانے کے لئے قیدیوں کو اذیت کا دیا جانا اور بد عنوانیوں کی وجہ سے مجرموں کے ساتھ انصاف ممکن نہیں، بہت سی صورتوں میں بے گناہوں کو سزا دی جاتی ہے-
سب سے خراب بات تو یہ ہے کہ سزا پانے والے قیدی عموماً نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی قابل وکیل کی خدمات نہیں حاصل کرسکتے- انہیں ریاست کی طرف سے فراہم کی جانے والی قانونی مدد پربھروسہ کرنا پڑتا ہے- اور عموماً یہ وکیل نااہل اور غیرذمہ دارہوتے ہیں- اسی لئے مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ مجرم اپنا مقدمہ ہار جاتے ہیں-
ذوالفقار علی کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا جو ڈاکٹر کے نام سے مشہور ہے- جڑی بوٹیوں کی ادویات (ہربل میڈیسن) میں ایم ڈی کی ڈگری انہوں نے علامہ اقبال یونیورسٹی سے اپنی قید کے دوران ہی حاصل کی تھی-
پندرہ سال کی سزائے قید میں انہوں نے نہ صرف اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے ساتھی قیدیوں کو بھی تعلیم دی تھی- ان کا کہنا ہے کہ عدالتوں نے ان کے بیانات نہیں سنے-
وہ کہتے ہیں انہیں قانونی مدد فراہم نہیں کی گئی جو ان کا حق تھا- ان کے لئے جو وکیل مقرر کیا گیا تھا اس نے ایک بار بھی ان سے ملاقات نہیں کی اور ذوالفقار کو قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا جس پر انکا کہنا ہے کہ یہ قتل انہوں نے اپنے دفاع میں کیا تھا کیونکہ ان پرحملہ ہوا تھا- انہوں نے فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل کی لیکن عدالت کی جانب سے مقرر کردہ وکیل نے ان کے مقدمے کی صحیح پیروی نہیں کی-
ان کے بیان سے عدلیہ کے نظام پربہت کچھ روشنی پڑتی ہے- چونکہ قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک وکیل کا ہونا ضروری تھا، "جیسا کہ مجھے بتایا گیا، ایک ایسے وکیل کو میری مدافعت کیلئےمقرر کردیا گیا جو وہاں موجود تھا جو میرے مقدمے سے قطعی طور پر لاعلم تھا"، کیا آپ اسے منصفانہ عمل کہہ سکتے ہیں کیا انسانی زندگی اتنی سستی ہے؟
نظام عدل کی ناکامی کی ایک اور مثال شفقت حسین کی ہے جسے 25 اگست کوایک ایسے جرم میں پھانسی کی سزا دی جانی تھی جو اس نے چودہ سال کی عمرمیں کیا تھا- یعنی جب وہ ابھی نابالغ تھا- وہ جیل میں چودہ سال کی سزا بھگت چکا ہے لیکن چونکہ قتل کی واردات کے وقت اس کی عمر 18 سال سے کم تھی اس لئے سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اس کو سزائے موت ہوسکتی ہے-
انٹرنیشنل کنونشن آن دی رائٹس آف چائلڈ (بچوں کے حقوق کا بین الاقوامی کنونشن) کی شق چالیس کے مطابق جس پر پاکستان نے بھی دستخط کئے ہیں، ریاستوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے قوانین اور ادارے بنائیں جو خاص طور پر ان بچوں کے لئے ہوں جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے تعزیری قوانین کی خلاف ورزی کی ہو، کیا شفقت کا مقدمہ بھی اس بات کی مثال نہیں ہے کہ اس کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوا؟
اس وقت پاکستان کی جیلوں میں سات ہزار سے زیادہ سزائے موت کے قیدی موجود ہیں اور ہمارے لئے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ ان میں سے کتنوں پر منصفانہ طورپر مقدمات چلائے گئے ہیں- یہ سنگین ناانصافی ہوگی اگر ان میں سے کسی ایک بھی شخص کوغلط طور پر پھانسی چڑھا دیا جائے کیونکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دفاعی ایجنسیاں اتنی اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ تشدد کو روکیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف تشدد کے ذریعہ ممکن ہے-
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایک واضح حکمت عملی اختیار کرے جو ایک معقول طرز فکر پر مبنی ہو - ہم جانتے ہیں کہ صرف طالبان ہی لوگوں کو ہلاک نہیں کرتے جیسا کہ وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں بہت سی سیاسی جماعتیں بھی دہشت گردی میں ملوث ہیں-
جناب نواز شریف کو چاہئے کہ وہ سزائے موت پر اپنے موقف پر احتیاط کے ساتھ غور و فکر کریں- انہیں نو ستمبر تک اپنی پارٹی پوزیشن واضح کرنی ہوگی-
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طویل المدت موقف اختیارکیا جائے- یہ طریقہ سمجھ سے باہر ہے کہ ہزاروں قیدیوں کو اعصاب شکن دور سے گزارا جائے، پہلے تو ان کی پھانسی کا دن مقررکیا جائے، اس کے بعد حکم التوا جاری کیا جائے اور اس کے بعد ایک نئی سزائے موت کا دن مقرر کیا جائے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ