سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس: حکومت کا ریٹائرڈ ججز کو کارروائی سے استثنیٰ کیخلاف اپیل پر غور
سپریم کورٹ کے جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر نقوی کے خلاف شکایات کا معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی 15 فروری تک ملتوی کردی گئی جب کہ کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بیان دیا کہ حکومت عافیہ شہر بانو کیس میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
چئیرمین سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شریک ہوئے۔
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم افغان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی بھی جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شریک ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انتخابات سے متعلق اہم معاملے ہمارے سامنے ہیں، چیف جسٹس نے خواجہ حارث کے معاون وکیل سے استفسار کیا کہ کونسل کی کارروائی ملتوی کرتے ہیں تو آپ کو اعتراض تو نہیں، جس پر معاون وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہمیں کونسل کی کارروائی ملتوی ہونے پر اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ حکومت عافیہ شہر بانو کیس میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، وفاقی حکومت بھی چاہتی ہے کہ کچھ مہلت دی جائے۔
واضح رہے کہ عافیہ شہر بانو کیس میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ ریٹائرڈ ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پھر کونسل کی کارروائی انتخابات کے بعد 15 فروری تک ملتوی کر دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہونے والے اجلاس کے دوران سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس (ر) مظاہر علی اکبر نقوی اور خواجہ حارث کو نوٹس جاری کیے تھے۔
اس حوالے سے ہدایت جاری کی گئی تھی کہ جسٹس (ر) مظاہر نقوی اور ان کے وکیل کو کونسل کی کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
کل اجلاس کی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا اٹارنی جنرل صاحب معاونت کریں کہ کیا معاملہ ختم ہوگیا؟ مظاہر نقوی کا استعفیٰ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے آغاز میں نہیں دیا گیا، کونسل کے شوکاز جاری کرنے کے بعد استعفیٰ دیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ ممکن ہے درخواستیں غلط ہوں، جج نے دباؤ پر استعفیٰ دیا ہو، جج کے دباؤ میں آکر استعفیٰ دینے سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ یقینی طور پر جج کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی تو ختم ہو گئی، استعفیٰ دینا کسی جج کا ذاتی فیصلہ ہے، ہمارے سامنے غیر معمولی صورتحال ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں، پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے، کوئی تو فائنڈنگ دینی ہے، شکایات جینوئن تھیں یا نہیں۔
دوران کارروائی اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسیجر 2005 میں درج ہے، سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا تھا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئیں، کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی، ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جب کہ اب ہو چکی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، اگر کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخری دن انہیں بتا دیتا ہے کہ آپ کو برطرف کرنے لگے ہیں اور وہ استعفی دے جائے تو کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفی دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ دو رکنی بینچ کا تھا جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔