نقطہ نظر

الیکشن کے دوران کون سی غلطی کرنے پر آپ جیل جاسکتے ہیں؟

جانیے الیکشن ایکٹ 2017ء کے ترمیم شدہ قانون کے مطابق وہ کام جو آپ کو جیل پہنچاسکتے ہیں۔

الیکشن والے دن بہت سے امیدوار اور ان کے حواری ووٹ حاصل کرنے کے لیے مختلف قسم کے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ من پسند پکوانوں سے ووٹرز کو راغب کیا جاتا ہے، ووٹرز کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کے لیے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے یہاں تک کہ ماضی میں بہت سی مثالیں ہمارے سامنے آئیں جہاں پیسوں کے ذریعے ووٹ خریدنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

مگر الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت بہت سے ایسے معاملات ہیں جس کی خلاف ورزی پر آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے ساتھ ساتھ بھاری جرمانے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس تحریر میں آپ کو بتائیں گے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے اگست 2023ء تک ترمیم شدہ قانون کے مطابق کون سے ایسے عمل ہیں جن سے بچ کر آپ خود کو سزا سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان ماضی میں منعقد ہونے والے انتخابات کے دوران امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے اور پولنگ اسٹیشن کے اندر قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے ریٹرننگ افسران و پریزائیڈنگ افسران کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیار تفویض کرچکا ہے۔ ان اختیارات کی روشنی میں اگر کسی حلقے کے متعلقہ الیکشن عملے کو یہ اطلاع موصول ہو کہ وہ شہری جو ووٹ ڈالنے کے لیے اہل ہے، اسے مذہبی، لسانی، صوبائی، برادری یا خواجہ سرا ہونے کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جارہی تو ایسی صورتحال میں قانون کے مطابق الیکشن عملہ جامع تحقیقات کرنے کے بعد ملوث افراد کو تین سال تک قید کی سزا یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دینے کا مجاز ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 168 کے مطابق اگر کوئی شخص یا امیدوار کسی ووٹر کو ذاتی طور پر ووٹ ڈالنے یا ووٹ نہ ڈالنے کے بدلے میں رشوت، نوکری سمیت کسی قسم کی بھی سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کرے، کوئی امیدوار کسی دوسرے کے حق میں دستبردار ہو جائے یا رشوت لے کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کرے اور یہ ثابت ہوجائے تو اس شخص کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑ سکتا ہے یا اس پر بھی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ایسا ووٹر جو کسی دوسرے شخص کے بدلے ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر حاصل کرنے کی کوشش کرے اور کسی دوسرے شخص کے نام پر ووٹ ڈالنے کی کوشش کرے چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ دونوں صورتوں میں یہ قابلِ گرفت فعل ہے۔ ایسا شخص یا امیدوار جو ووٹرز پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے ووٹ کے بدلے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے یا کسی قسم کا نقصان پہنچانے کے علاوہ اپنے بااثر ہونے کا رعب ڈالنے کے علاوہ کسی قسم کا مذہبی سزا سے ڈرائے اور مسلح افواج کے خلاف کوئی بات کرے یا خواتین اور خواجہ سراؤں کو ووٹ ڈالنے سے روکے یا مذہبی عبادت گاہوں کو اپنے ووٹ کے حصول کا ذریعہ بنائے تو ایسے شخص کو بھی تین سال تک قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

الیکشن کے دن اگر کوئی شخص یا امیدوار کسی پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ پر دھاوا بول کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے یا کر لیتا ہے، اس کے علاوہ انتخابی کارروائی روکنے کے لیے بیلٹ پیپرز، بیلٹ باکس یا دونوں پر قبضہ کرلیتا ہے تو یہ قابلِ گرفت جرم ہے۔ اس کے علاوہ اگر پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ کے اندر ایک مخصوص امیدوار کے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے اور دیگر امیدواروں کے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے نہ دیا جائے تو اس کی بھی قانون کے مطابق سزا ہے۔

ایسا شخص جو کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑ کرتا ہے یا اسے پھاڑنے کی کوشش کرے اور بیلٹ پیپر پر موجود انتخابی نشان کو نقصان پہنچائے یا بیلٹ باکس کی سیل کو توڑنے کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں الیکشن عملہ متعلقہ شخص کو چھ ماہ تک قید، یا ایک لاکھ روپے جرمانے یا دونوں سزائیں بیک وقت دے سکتا ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 175کے تحت کرپٹ پریکٹس یا ایسا عمل جس میں کوئی ووٹر ووٹ ڈالنے کا اہل نہیں پھر بھی پولنگ عملے سے بیلٹ پیپر کا مطالبہ کرے یا ایک پولنگ اسٹیشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد دوبارہ اسی پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کرے، پولنگ اسٹیشن کے گرد انتخابی مہم چلانے کی کوشش کرے، پولنگ اسٹیشن کے اندر یا باہر ووٹرز کو راغب کرنے کی کوشش کرے یا ووٹ کی رازداری کو افشا کرنے کے علاوہ الیکشن مہم کے دوران یا الیکشن والے دن اسلحہ کی نمائش، ہوائی فائرنگ کرے، یہاں تک کہ وہ ریٹرننگ افسر کی جانب سے الیکشن نتائج کے 24 گھنٹوں بعد بھی فائرنگ کرتا ہے تو اسے دو سال تک قید، ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے لیے کسی بھی سرکاری محکمے یا افسر کی خدمات لے سکتا ہے اس ضمن میں وہ سرکاری ادارہ یا افسر اگر اپنے فرائض سر انجام دینے میں غفلت کا مظاہرہ کرے یا نااہلی کا ثبوت دے، کسی ووٹر پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے یا الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اسے دو سال کی قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اگر پولنگ اسٹیشن کا کوئی عملہ، پولنگ ایجنٹ یا الیکشن ایجنٹ ووٹ کی رازداری کو افشا کرنے میں ملوث پایا جاتا ہے یا بغیر کوئی قانونی اختیار کے پولنگ کا وقت ختم ہونے سے متعلق عوام کو گمراہ کرے تو ایسے شخص کو چھ ماہ تک قید یا ایک ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں۔ ایسا ووٹر جو ایک حلقے میں ایک سے زائد بار اپنا ووٹ رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کرے یا وہ سرکاری عملہ یا رجسٹریشن آفیسر جو جانتے ہوئے بھی کسی ووٹر کا ایک سے زائد بار ووٹ رجسٹرڈ کرنے میں ملوث پایا جائے اسے بھی چھ ماہ تک کی سزا یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کام کرنے والے افسران و ملازمین میں سے اگر کوئی معلومات کو افشا کرنے یا انتخابی فہرستوں کے ڈیٹا بیس میں موجود مواد سمیت دیگر اہم اور خفیہ معلومات کو بغیر اجازت کسی غیر متعلقہ شخص کو فراہم کرنے میں ملوث پایا جائے تو اسے ایک سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانے یا دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ پر حملہ کرنے، پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ کے اندر کسی شخص کو زخمی کرنے یا عمارت کو نقصان پہنچانے، اسلحہ کی نمائش اور پولنگ اسٹیشن کے اندر فائرنگ کرنے، ووٹرز کو بغیر ووٹ ڈالے پولنگ اسٹیشن سے باہر جانے پر مجبور کرنے، بیلٹ باکس یا بیلٹ پیپر کو چھیننے میں ملوث شخص سمیت پریزائیڈنگ افسر یا پولنگ اسٹاف کو اغوا کرنے میں ملوث افراد کے خلاف تعزیرات پاکستان 1860ء کے قانون کے مطابق سزا دلوانے کے لیے پریزائیڈنگ افسر تحریری طور پر ریٹرننگ افسر کو آگاہ کرے گا جس پر ملزمان کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے پولیس کو درخواست دی جائے گی۔

پولیس متعلقہ عدالت میں ملزمان کے خلاف ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کے ساتھ ساتھ تفتیش سے متعلق الیکشن کمیشن کو بھی آگاہ کرنے کی مجاز ہوگی اور عدالت سے سزا ہونے کی صورت میں متعلقہ عدالت اپنی ممکنہ تجاویز کے ساتھ رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے گی جس کی روشنی میں الیکشن کمیشن اقدامات اٹھائے گا۔

مجسٹریٹ درجہ اول کی جانب سے سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف ٹرائل سیشن جج کی عدالت میں کیا جائے گا اور سزا یافتہ شخص مکمل تحریری فیصلہ آنے کے 30 دن کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اختیار رکھتا ہے جسے ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ سننے کا مجاز ہوگا۔ اگر شکایت کنندہ کی شکایت غلط ثابت ہوتی ہے یا اس میں کسی شخص کو فائدہ پہنچانے کے لیے غلط بیانی یا معلومات کا استعمال کیا جائے تو ایسے شخص کو چھ ماہ قید یا 50 ہزار روپے جرمانے یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

الیکشن کمیشن ایسے عمل پر ملزم کا سمری ٹرائل کرنے کے احکامات بھی دے سکتا ہے جسے ایڈیشنل سیشن جج یا  سیشن  جج  سنے گا۔

علی وقار

لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔