پاکستان

بحیرہ عرب میں جہازوں کی تعیناتی کا حماس، اسرائیل تنازع سے کوئی تعلق نہیں، پاک بحریہ

حکومتی پالیسی کے مطابق فلسطینی مقصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں, حوثیوں کے خلاف آپریشن کرنے والے کسی امریکی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں، ترجمان

پاک بحریہ نے وضاحت کی ہے کہ بحیرہ عرب میں پاک بحریہ کی جانب سے جہازوں کی تعیناتی کا حماس اور اسرائیل کے تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم حکومتی پالیسی کے مطابق فلسطینی مقصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور حوثیوں کے خلاف آپریشن کرنے والے کسی امریکی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔

گزشتہ روز پاکستان بحریہ نے میری ٹائم سیکیورٹی کے حالیہ واقعات کے پیش نظر بحیرہ عرب میں اپنے بحری جہاز تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بحری جہازوں کی بحیرہ عرب میں تعیناتی پر جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ پاک بحریہ وضاحت کرے کہ یہ اقدام اہلیان یمن اور حوثیوں کے خلاف غزہ اسرائیل جنگ کے تناظر میں اسرائیل کی سپلائی لائن کاٹنے کے لیے کی گئی کاروائیوں کے خلاف تو نہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اس پر نظرثانی اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اہلیان یمن اور حوثی قبلہ اول کی آزادی کی جنگ لڑنے والے اہلیان غزہ اور حماس کے ساتھ ہیں، اسرائیل گزشتہ 3 ماہ سے اہلیان غزہ کی نسل کشی کر رہا ہے اور اہلیان یمن اور حوثی اسرائیلی دہشت گردی پر ردِعمل میں کارروائی کررہےہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اہلیان یمن اور حوثی یہ کارروائیاں اسرائیل اور عالمی برادری پر غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں قتل عام روکنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی پریشر تکنیک کے طور پر کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اہلیان غزہ کی ناکہ بندی کی گئی ہے، وہاں پر پانی، خوراک، ادویات کی شدید قلت ہے لیکن اس کو توڑنے کے لیے کوئی بحری جہاز امدادی سامان لے کر نہیں جاتا بلکہ اسرائیل کو تیل اسلحہ کی سپلائی کی جاتی ہے۔

انہوں نے سینیٹ میں اس معاملے پر بحث کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان انڈونیشیا اور ترکی ایک بین الاقوامی فلوٹیلا بنا کر خوراک، ادویات، پانی اور دوسری ضروری امداد لے کر غزہ تک پہنچائے۔

سینیٹر مشتاق کی اس ٹوئٹ پر پاک بحریہ کے ترجمان میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے سے گزرنے والی بین الاقوامی بحری جہازوں اور پاکستان سے گزرنے والے جہازوں کے تحفظ کے لیے ہم نے بحیرہ عرب میں اپنے بحری جہازوں کی تعیناتی کے حوالے سے جو پریس ریلیز جاری کی ہے اس کا حماس اور اسرائیل کے تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومتی پالیسی کے مطابق فلسطینی مقصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور ہم حوثیوں اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی تنازع میں فریق نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان نیوی کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق ہمارے بحری جہازوں اور ہماری سمندری حدود سے گزرنے والی مواصلاتی لائنوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلیوں کے خلاف حوثیوں کی کارروائیوں کی آڑ میں صومالی قزاقوں نے تاوان کے لیے بحری جہازوں کو ہائی جیک کرنا بھی شروع کر دیا ہے اور حال ہی میں 1000 کے قریب کنٹینرز پر مشتمل ایک جہاز جو پورٹ قاسم پر پہنچنا تھا، اسے صومالی قزاقوں نے ہائی جیک کر لیا اور اس سے ہماری تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

ترجمان نے کہا کہ پاک بحریہ پاکستان کی سمندری مواصلاتی لائنوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور ہماری یہاں موجودگی کی وجہ بھی یہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حوثیوں کے خلاف آپریشن کرنے والے کسی امریکی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی ہم فلسطین کے معاملے پر امریکی موقف کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ حکومتی پالیسی کے خلاف کام نہیں کرے گی اور پاک بحریہ کے افسران اور جوان فلسطینی کاز کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور غزہ میں اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے۔