پی ٹی آئی سمیت جو بھی جماعت حکومت بنائے گی اسے اقتدار منتقل کردیں گے، نگران وزیر اعظم
نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام پاکستان تحریک انصاف سمیت جس بھی جماعت کو ووٹ دیں گے اور ان کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو ہمیں انہیں اقتدار منتقل کرنا پڑے گا، ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’ایک دن جیو کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے اپنے منصب کے حوالے سے سوال پر کہا کہ روایتی جواب تو یہ ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا میرے نام پر اتفاق ہوا لیکن سچی بات ہے کہ یہ سفارش آسمان سے آئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً مختلف اداروں سے میرے نام کے حوالے سے رائے ہو گی لیکن مجھے اطلاع شہباز شریف نے دی تھی، مجھے راجا ریاض نے نہیں بتایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایسے رشتےدار، دوست اور اساتذہ ملے جنہوں نے ہمیشہ رہنمائی کی اور کچھ نے ان مٹ نقوش چھوڑے۔
انہوں نے کہا کہ 9مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کو سزا ملنی چاہیے، میری رائے میں پوری جماعت کے بجائے صرف ذمے داران کو سزا ملنی چاہیے اور نہ ایسا کوئی ارادہ ہے کہ پوری پی ٹی آئی سے دشمن جیسا برتاؤ کیا جائے لیکن ذمے داران کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایس اطلاعات نہیں آئیں جس کی بنیاد پر میں یہ رائے قائم کر سکوں عمران خان اس کے ماسٹر مائنڈ تھے، رائے قائم کرنے سے قبل بھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک عدالتی عمل ہے اور اگر وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ واقعتاً اس کے ماسٹر مائنڈ تھے تو میں اس وقت اس سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھوں گا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نگراں حکومت ملکی بہتری کے لیے اقدامات کررہی ہے اور عوام انتخابات میں اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا نگران حکومت اس کے لیے تیار ہے کہ پی ٹی آئی اکثریت سے جیت جائے اور ان کو حکومت منتقل ہو جائے تو نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہم تیار ہوں یا نہ ہوں، یہ فیصلہ تو پاکستان کے عوام نے کرنا ہے، اگر عوام اس طرح کا فیصلہ کریں گے تو آنے والی پارلیمنٹ میں جو بھی جماعت حکومت سازی کرتی ہے ہمیں اس کو پرامن طریقے سے اقتدار منتقل کرنا ہے اور اگر کسی اور کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو بھی ہمیں اسے اقتدار منتقل کرنا پڑے گا، ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور میں نے 2013 اور 2018 دونوں میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اس مرتبہ بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب میں پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دوں گا کیونکہ میرے خیالات بدل چکے ہیں، کم از کم میں ووٹ ان کو نہیں دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس یقین پر ووٹ دیا تھا کہ پاکستان کے گورننس کے چیلنجز کو روایتی پارٹیاں کئی مواقع ملنے کے باوجود حل نہیں کر سکیں تو ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر ان کو موقع ملنا چاہیے اور یہ تاثر بنا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک ایسی ٹیم ہے جو ان تمام گورننس کے چیلنجز کو حل کر سکے گی لیکن بدقسمتی سے تین، ساڑھے تین سال کے دورانیے میں ہماری رائے تبدیل ہو گئی، نہ اس طرح کی کوئی ٹیم تھی، نہ تیاری تھی۔
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے بعد جس طرح ریاست کے اداروں سے مڈبھیڑ کی گئی اس سے لگ یہ رہا ہے کہ سیاسی رویے میں جس طرح کا شعور درکار ہے، اس میں کمی ہے اور یہ تمام وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے میں اپنے ووٹ کا حق ان کے حق میں استعمال نہیں کروں گا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا مقتدریٰ اور نگران حکومت پہلے ہی نواز شریف کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو انہوں نے کہاکہ میرے علم میں تو ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہے، نہ ہی ایسی کوئی گفت و شنید میرے سامنے آئی ہے جس میں کسی بھی جماعت سے متعلق اس طرح کی رائے کا اظہار کیا گیا ہو، الیکشن ہونے ہیں اور 8 فروری کی شام یا 9 کی صبح تک عوام کو پتا چل جائے گا کہ انہوں نے کس کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور اس طرح کی قیاس آرائیاں دم توڑ جائے گی۔