توشہ خانہ کیس: عمران خان اور اہلیہ پر آج بھی فرد جرم عائد نہ ہوسکی
توشہ خانہ ریفرنس کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر آج بھی فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل 190 ملین پاؤنڈ کیس اور توشہ خانہ کیس ریفرنسز پر سماعت کی، بعد ازاں ان ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں ملزمان کو نقول کی تقسیم بھی 8 جنوری تک مؤخر ہوگئی۔
عمران خان کی جانب سے بیٹوں سے ٹیلی فونک گفتگو کی درخواست پر عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو بیٹوں سے ٹیلی فونک گفتگو کی اجازت بھی دے دی۔
اس کے علاوہ سماعت کے دوران ملزم ملک ریاض کی جانب سے وارنٹ منسوخی کی درخواست دائر کی گئی جس پر فریقین کے دلائل مکمل ہوگئے اور فیصلہ بھی محفوظ کرلیا گیا ہے۔
ملزم ملک ریاض نے حاضری سے استثنیٰ اور وڈیو لنک کے ذریعے حاضری سے متعلق دو الگ الگ درخواستیں بھی دائر کی لیکن ملزم کی جانب سے دائر دونوں درخواستوں کو عدالت نے خارج کردیا۔
سماعت کے دوران سابق چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست بھی منظور کرلی گئی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 4 جنوری کو بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ پر فرد جرم نہیں عائد ہوسکی تھی اور اور 190 ملین پاؤنڈز ریفرنسز میں درخواست ضمانت پر نیب کی جانب سے دلائل دیے گئے تھے جس کے بعد سماعت 6 جنوری تک ملتوی کردی گئی تھی۔
گزشتہ سال**5 اگست** کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔
بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔
6 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
توشہ خانہ ریفرنس
گزشتہ برس اگست میں سابق حکمران اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، بعدازں 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا، فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔
5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔
بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔