انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد سینیٹ میں کثرت رائے سے منظور
سینیٹ نے ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔
سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے رپورٹ کیا کہ ایوان بالا میں 8 فروری 2024 کے انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی ہے، قرارداد خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی۔
ڈان نیوز کے مطابق قرارداد کی منظوری کے وقت سینیٹ میں صرف 14 ارکان موجود تھے، قرارداد کے وقت سینیٹ میں کورم پورا نہیں تھا۔
سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ ملک کے بعض علاقوں میں شدید سردی کا موسم ہے، سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو سیکیورٹی تھریٹس ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیز نے ریلیوں پر حملوں کا سیکیورٹی الرٹ جاری کیا ہے۔
سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ کورونا کا معاملہ بھی اس وقت ہے، 8 فروری کو انتخابات ملتوی کرنے چاہئیں۔
منظور کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کےحالات انتہائی خراب ہیں، مختلف علاقوں میں موسم سرما اپنی انتہا پر ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں، فروری میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کیا جائے۔
قرار داد کے متن کے مطابق الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ موزوں وقت تک انتخابات ملتوی کرے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بہرہ مندتنگی نے بھی قراردادکی مخالفت نہیں کی جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ خان اور نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے قرارداد کی مخالفت کی، جبکہ پی ٹی آئی کے رکن گردیپ سنگھ قرارداد پر رائے شماری کےدوران خاموش رہے۔
سینیٹر ہدایت اللہ نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ لسانیت اور علاقائیت کی جانب بات لے جا رہے ہیں، ہماری لاشیں گری ہیں،کیا ان کی گریں؟ انتخابات ملتوی کراکے فیڈریشن کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر منظور احمد نے کہا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ دہشتگردی نے پاکستان کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ایک سیاسی کارکن اگر شہید ہوگا تو اس کے گھر والوں کی کفالت کون کرے گا؟۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قائدین شہید کارکنوں کے اہلخانہ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں، ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اپنے عوام کو دہشتگردی کی زد میں نہیں آنے دیں گے۔
سینیٹر منظور احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے برفباری اور منفی درجہ حرارت کے دوران 1997 کے انتخابات کروائے، اگر حالات سازگار نہیں تو ہمیں کمپرومائز کرنا ہوگا۔
’پنجاب میں خیبرپختونخوا جیسی صورتحال نہیں، ان کوبات سمجھ نہیں آئےگی‘
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سینیٹر پرنس عمر نے کہا کہ پنجاب میں خیبرپختونخوا جیسی صورتحال نہیں، ان کوبات سمجھ نہیں آئےگی، اس وقت آواز اگر آ رہی ہے تو وہ بلوچستان سے آرہی ہے، یا خیبرپختونخوا سے۔
سینیٹر پرنس عمر کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں درجہ حرارت منفی ہے، اور جلانے کے لیے لکڑی تک نہیں، سردی کی وجہ سے ہمارا ووٹر تو اپنے مقام پر ہے ہی نہیں، وہ ہجرت کر جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سردی کی وجہ سے ہمارا ووٹر سندھ یا حب کی طرف چلاجاتا ہے، ہمارا ملک دہشت گردی کا متحمل نہیں ہوسکتا، امیدہے کہ الیکشن کمیشن اس پر غور کرےگا اور ضرور اچھا فیصلہ کرےگا۔
خیال رہے کہ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چند روز قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پُرامن ماحول کو یقینی بنانے کے لیے انتخابات کو چند روز کے لیے مؤخر کیا جائے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے، تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان دونوں ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہیں۔
اس سے قبل 2 اکتوبر 2023 کو بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں شدید سردیوں میں عام انتخابات کے انعقاد پر سوالات اٹھائے تھے۔
انتخابات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا تھا کہ جنوری میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوری میں چترال، خضدار، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں شدید سرد موسم ہو گا، مزید کہا کہ خدشات کے باوجود ان کی جماعت انتخابات میں تاخیر کا مطالبہ نہیں کرے گی۔