’قانون ہوتا تو بلوچستان سے یہاں آتے‘ پولیس انتظامیہ کو مظاہرین کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد پولیس انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ بلوچ مظاہرین کو ہراساں نہ کریں جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ہیں کہ قانون ہوتا تو یہ بلوچستان سے یہاں آتے، عورتیں بچے ان کو کچھ ہوا تو انتظامیہ پولیس کی ذمہ داری ہو گی۔
ڈان نیوز کے مطابق بلوچ مظاہرین کی اسلام آباد پولیس کی جانب سے مسلسل ہراساں کیے جانے کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔
درخواست گزار سمیع دین بلوچ کی جانب سے وکیل عطا اللہ کنڈی، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد عرفان نواز میمن اور ایس ایس پی آپریشنز عدالت کے سامنے پیش پیش ہوئے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے مؤقف اپنایا کہ راؤنڈ دا کلاک ساؤنڈ سسٹم تو استعمال نہیں کر سکتے، دوسرے شہریوں کے بھی حقوق ہیں۔
نمائندہ آئی جی اسلام آباد آفس نے عدالت کو بتایا کہ کوئی نامعلوم افراد لے گئے، ان کا آپس میں کوئی جھگڑا ہو گا، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نامعلوم افراد کی وجہ سے یہ بھائیوں، بیٹوں کو یہاں ڈھونڈ رہے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وفاقی حکومت کو بھی سمجھ نہیں آتی، ہم معاملات کہاں لے کر جا رہے ہیں، نمائندہ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ یہ کوئی چیز لے کر آئیں تو ہمیں دکھائیں۔
وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا کہ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس چیز کی اجازت نہیں این او سی لے کر آئیں، ہم فوکل پرسن رکھنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سیکیورٹی کے لیے واک تھرو گیٹ بھی یہ لگا سکتے ہیں، یہ دیگ میں بھی ہاتھ ڈال کر چاول بھی چیک کرتے ہیں، قانون بھی کچھ ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ قانون ہوتا تو یہ بلوچستان سے یہاں آتے، عورتیں بچے ان کو کچھ ہوا تو انتظامیہ پولیس کی ذمہ داری ہو گی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ مظاہرین کو تحفظ دینا بھی پولیس انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔
سمیع الدین بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ 15 سال سے میرے والد لاپتا ہیں، ایس ایچ او کا رویہ بڑا عجیب ہے، ہم اسلام آباد آئے ہیں اور ہمارے ساتھ یہ رویہ ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد پولیس انتظامیہ کو ہدایت کی بلوچ مظاہرین کو ہراساں نہ کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جن کے بھائی باپ بیٹے گمشدہ ہیں، وہ وہی جانتے ہیں ان پر کیا گزر رہی ہے، شاہراہ دستور ڈی چوک یہاں تو زندگی گزر گئی, لوگ احتجاج کرتے ہیں۔
عدالت نے مظاہرین کو بھی ہدایت کی کہ آپ بھی کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ کریں کس سے آپ کے مقصد پر حرف آئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ کیمپ میں ہوتے ہیں، واش رومز کیا کوئی سہولت ہے ؟ جس پر ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ وہاں کیمپ لگے ہیں، واش رومز نہیں ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ خواتین ہیں بچیاں ہیں، ایڈمنسٹریٹو ایم سی آئی کو ہدایت دے دیتے ہیں وہ سہولت فراہم کرے، ایسا بالکل نہیں ہو گا کہ ایس ایچ او کسی خاتون کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نا کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ مظاہرین کو فوکل پرسن مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آج تین بجے بلوچ مظاہرین کے فوکل پرسن پولیس انتظامیہ سے ملیں گے، پولیس اور انتظامیہ بھی ملاقات کرکے ٹی او آر طے کرے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عارضی واش رومز کے لیے آج سی ڈی اے کو ہدایت دوں گا۔
بعد ازاں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 19 جنوری کے لیے ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ 3 جنوری کو بلوچ مظاہرین نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے مسلسل ہراساں کیے جانے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایچ او کوہسار کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی عدالت فریقین کو بلوچ مظاہرین کو ہراساں کرنے اور پریس کلب سے بےدخل کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کرے۔
مزید استدعا کی گئی کہ فریقین کو بلوچ مظاہرین سے اسپیکر چھیننے والے نامعلوم افراد کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا جائے۔
درخواست گزار نے استدعا کی تھی عدالت فریقین کو بلوچ مظاہرین سے چھینے گئے اسپیکر اور غیر قانونی طور پر ضبط کی گئی، گاڑیاں واپس کرنے کے احکامات جاری کرے۔
بعد ازاں، 3 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب سے بلوچ مظاہرین کو ہٹانے سے روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے سماعت آج (5 جنوری) تک کے لیے ملتوی کی تھی۔
پس منظر
جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں 21 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے والے لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف اسلام آباد پولیس نے رات گئے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا تھا۔
لانگ مارچ 20 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں پہنچا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں سمیت اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی۔
اسلام آباد پولیس نے بلوچ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، پولیس نے آپریشن 26 نمبر چونگی اور نیشنل پریس کلب کے باہر کیا، اس دوران مظاہرین کے لگائے گئے ٹینٹ اور ساونڈ سسٹم اکھاڑ دیے گئے۔
پولیسں نے واٹر کنین سے مظاہرین پر پانی بھی پھینکا، سیکٹر ایف سکیس میں آنسو گیس کی شیلنگ سے گھر میں موجود لوگ شدید متاثر ہوئے، بلوچ مظاہرین کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن رات کے پچھلے پہر کیا۔
بعد ازاں گرفتاری کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا تھا جس نے گرفتار مظاہرین کی رہائی کے احکامات دیے تھے، جبکہ حکومتی وزرا کی کمیٹی نے مظاہرین سے ملاقات کی تھی اور جائز مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائی تھی۔