پاکستان

سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مختصر فیصلہ جلد سنائیں گے۔
|

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مختصر فیصلہ جلد سنائیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔

عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی گئی۔

چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر ریمارکس دیے کہ الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولر بینچ میں مقرر ہوں گے، اس کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے، انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتے سنیں گے، ہو سکتا ہے تب تک ہمارا اس کیس میں آرڈر بھی آچکا ہو۔

جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کے سامنے بنیادی سوال اسی عدالت کے سابقہ فیصلے کا ہے، اس عدالت نے پبلک نوٹس جاری کیا اس پر آیا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لا سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہوجاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کا ڈیکلیریشن دے سکتا ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ سول کورٹ ایسا ڈیکلیریشن نہیں دے سکتا، کون سا سول کورٹ ہے جو کسی کو واجبات باقی ہونے پر کہہ دے یہ صادق و امین نہیں۔

پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے، چیف جسٹس

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے ڈیکلیریشن پر نااہلی کی مدت متعین کی جا سکتی ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں کورٹ آف لا کی بات ہے جس میں سول اور کرمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، کل جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا آرٹیکل 62اور63 الگ الگ رکھنے کی وجہ کیا تھی، اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہی ہوتا ہے یا بعد بھی ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جزو تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ کو ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، آئین سے جنرل ایوب سے لے کر سب نے تجاوز کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے۔

’صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟ ایک جنرل نے شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے‘ ؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟ پاکستان کی پارلیمان کا جو امتحان ہے، کیا وہ دنیا کی کسی پارلیمان کا ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جاسکتا، ان دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل 17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔

’کیس میں کوئی سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، عوام کا کسی کو خیال نہیں‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کہا گیا کہ سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جا سکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں، کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں؟

مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تو پھر ہم نے اپنے ارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا دنیا میں کہیں اور ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں آئین کو 18ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں، ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین نے نہیں کہا تھا نااہلی تاحیات ہے، یہ ہم نے کہا، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، ہم نے نااہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے۔

’آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں‘

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا دو سال ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کرتا ہے، کیا سزا تاحیات ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آئین نے خود طے کیا نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے، نیب قانون میں بھی سزا دس سال کرائی گئی، آئین وکلا کے لیے نہیں عوام پاکستان کے لیے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں، فلسفیانہ باتوں کے بجائے آسان بات کریں، یہاں نااہلی کی مدت تاحیات کیسے ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کاغذات میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنے گرام سونا ہے، آپ گھر جا کر سونا تولیں گے پھر بتائیں گے، آپ اگر وہ انگوٹھی بھول گئے جو بیوی نے پہن رکھی ہے تو تاحیات نااہل ؟ آپ لائیو ٹی وی پر ہیں عوام کے لیے اس کی منطق تو واضح کریں، اگر کوئی سونا چند گرام لکھوائے تو کیا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا ہم 232 تین کو ریڈ ڈاون کرسکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بہت مشکوک نظریہ ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ 232 تین کو اس طرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا پانچ سال ہوگی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے، 232 تین کو اگلا پارلیمنٹ ختم کرسکتا ہے، عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگر سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم سیکشن 232 دو کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈیکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی،جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگر عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کر دے تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟

وکیل مخدوم علی خان نے سوال اٹھایا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کا عدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے؟ جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈیکلریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکا میں قانون کالعدم ہو تو کانگریس نیا قانون بنا لیتی ہے، امریکی کانگریس اپنی عدالت کو قائل کرتی ہے کہ اپنے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے تک مدت کم نہیں ہوسکتی۔

’پورا پاکستان 5 سال نا اہلی قانون سے خوش،کسی نے قانون چیلنج ہی نہیں کیا‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے ڈیکلریشن کی مدت پانچ سال کی گئی ہے، وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کے لیے ہونی چاہیے تاحیات نہیں، اگر کوئی قانون چیلنج کرے پھر عدالت دیکھے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا پاکستان 5 سال نا اہلی مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے قانون چیلنج ہی نہیں کیا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں کیونکہ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب قانون چیلنج ہوگا عدالت تب دیکھ سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آئینی شق کو عام قانون سے ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں اصول طے کر چکے ہیں کہ قانون سے ریگولیٹ ہو سکتا ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ آسٹریلیا میں کرمنلز کو بے دخل کرنے کا قانون تھا،کوئی اور ملک مگر ان لوگوں کو لینے کو تیار نہ ہوتا، ایسے میں طے پایا کہ اس شخص کو اب فوری رہا کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سارے معاملے کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ تعلق سزا کی مدت کا ہے، غیر معینہ مدت تک کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، بچوں کیخلاف جرائم جیسی سنگینی پر بھی تمام حقوق ختم نہیں ہوتے، سربراہ پی ٹی آئی کو نا اہل نہیں کیا گیا ، شکیل اعوان، خواجہ آصف، شیخ رشید کیسز دیکھیں تو تا حیات نا اہلی کا فیصلہ لکھنے والے جج آہستہ آہستہ مؤقف بدلتے رہے۔

چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلے پر سوالات اٹھادیے

چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ خاکوانی کیس میں سات رکنی بینچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی بینچ تھا، سات رکنی بینچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بینچ دیکھے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بعد میں پانچ رکنی بینچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں پانچ رکنی بینچ نے اس پر اپنا فیصلہ کیسے دیا؟ یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا ، انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں نااہلی کی ڈکلئیریشن پر سوالات اٹھائے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو سوالات اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے ان کا فیصلہ ہم کریں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہو گا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیریشن کس نے دینا ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لا کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دیا، جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ جو بات کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے ابھی ہم نے پہلی رکاوٹ ہی عبور نہیں کی،ڈیکلیریشن کا طریقہ کار کیا ہو گا یہ ہم کیسے طے کر سکتے ہیں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے پانچ سال کی مدت طے کردی ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے صرف نااہلی کی مدت کا تعین کیا ہے، نااہلی کی ڈکلئیریشن اور طریقہ کار کا تعین ابھی نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے جسٹس منصور کے سوال پر اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ منصور صاحب اس کا جواب یہ دیں کہ پارلیمنٹ آئندہ یہ بھی طے کر لی گی، عدالتیں قانون نہیں بناتیں، عدالتیں صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا جائزہ لے سکتا ہے کہ قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 1973 کا آئین بنانے والے زیادہ دانشمند تھے، بعد میں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئے آئے کہ چلو اس میں کچھ اور ڈال دو، انہوں نے کہا یہ لوگ سر نہ اٹھا لیں، انہوں نے سوچا ایسی چیزیں لاتے ہیں جس کو جب دل چاہا نااہل کردیں گے، کسی جگہ آئین میں اگر خاموشی رکھی گئی تو اس کی بھی وجہ ہو گی، جب میں کہتا ہوں میں نے کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرنا تو یہ بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے۔

’وہ بات نہ کریں جو ہمارے سامنے نہیں، وکیل وہ کیس نہیں لڑتا جس کی فیس نہ ملی ہو‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ایسی کوئی مثال ہےکہ سمیع اللہ بلوچ کے بعد کیس کو تا حیات نا اہل کیا گیا ہو ، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا ڈکلیریشن کو ختم کیا گیا، وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایسی کوئی مثال نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ثناء اللہ بلوچ کے لیے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں کچھ کہا گیا ؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف کو نا اہل کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی کا نام نہ لینا ، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تنخواہ لینے کا سہارا لے کر نا اہلی کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ بات نہ کریں جو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، وکیل وہ کیس نہیں لڑتا جس کی اسے فیس نا ملی ہو۔

جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد کو ایماندار اور امین قرار نہیں دیا جا سکتا، نااہلی کا ڈیکلریشن شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہی دیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کسی کو نااہل قرار نہیں دے سکتیں۔

عدالت نے جمعے کی نماز کےلیے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔

’اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار شریعت کورٹ کا ہوتا ہے‘

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے 2015 کے اسحٰق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورٹ آف لا کیا ہو گی 2015 میں سات رکنی بینچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ آف لا سے متعلق سمیع اللہ بلوچ نے فیصلہ نہیں کیا لیکن اسحٰق خاکوانی کیس میں 2015 میں یہ معاملہ اٹھا تھا، اسحٰق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں نااہلی کی ڈکلئیریشن پر سوالات اٹھائے، اسحاق خاکوانی کیس میں یہ کہا گیا کہ نااہلی سے متعلق سوالات کا آئندہ کسی کیس میں عدالت فیصلہ کرے گی۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو سوالات اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے ان کا فیصلہ ہم کریں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہو گا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیریشن کس نے دینی ہے،عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لا کیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال اٹھایا کہ اسحٰق خاکوانی کیس میں سات رکنی بینچ فیصلہ کر چکا تھا تو پانچ رکنی بینچ نے وہ فیصلہ کیوں نہ دیکھا؟ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ سات رکنی بنچ کے فیصلے کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہے؟ سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دیا۔

اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے اور پاکستان تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پیش ہو رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خوش آمدید،کب سے انتظار کر رہے تھے کہ کوئی سیاسی جماعت آئے۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کے لیے کی گئی، پارلیمنٹ نے فرد واحد کے لیے ترمیم کر کے سپریم کورٹ کی 62 ون ایف کی تشریح غیر موثر کر دی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو الیکشن ایکٹ نہیں اپنا فیصلہ دیکھ رہے ہیں، الیکشن ایکٹ کو چیلنج کریں تو اسے بھی دیکھ لیں گے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق آئینی ترمیم لازمی ہوگی، الیکشن ترمیمی ایکٹ میں خامیاں ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ سے مسئلہ ہے تو اسے چیلنج کریں، چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کیا کہ تحریک انصاف نے ہمارے سامنے کوئی درخواست دائر نہیں کی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کیا کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ ہم تو آج کل دیر ہی کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ مختصر فیصلہ جلد سنایا جائے گا۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 11 دسمبر کو میر بادشاہ خان قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کی اگلی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ نااہلی 62 ون ایف کی بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہوجائیں گے۔

قانون دانوں کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت نہیں لکھی لیکن ماضی میں سپریم کورٹ نے تشریح کرکے اسے تاحیات نااہلی سے تعبیر کیا تھا۔

بھارت: حکمران جماعت کے ارکان یونیورسٹی طالبہ کے گینگ ریپ میں ملوث

سڈنی ٹیسٹ: عامر جمال کی تباہ کن باولنگ، آسٹریلیا 299 رنز پر ڈھیر

گریجویشن کے بعد جس لڑکے سے تعلقات رکھے، اس نے تشدد کیا، عائشہ عمر