نکاح کیس: عمران خان، بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ کا حکم نامہ جاری
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف مبینہ غیر شرعی نکاح کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
سول جج قدرت اللہ نے تحریری حکم نامہ جاری کیا جس کے مندرجات کے مطابق مقدمے سے متعلق تمام دستاویزی کاپیاں ملزمان کو فراہم کردی گئیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان پر 10 جنوری کو فرد جرم عائد کی جائے گی، ملزمان کے وکلا کی جانب سے عوام اور میڈیا نمائندگان کی وافر تعداد کو عدالت تک رسائی کی استدعا کی گئی۔
حکمنامے کے مطابق اس پر عدالت 22 دسمبر کا حکم نامہ جاری کرچکی ہے، سپرٹنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت کے 22 دسمبر کے احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائیں، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت میں جگہ کی دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کی تعداد سے متعلق فیصلہ کریں گے۔
2 روز قبل اسلام آباد کی مقامی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی۔
اس سے قبل 18 دسمبر کو ہونے والی سماعت پر عدالت نے کیس کا اوپن ٹرائل جیل سمیت کسی بھی محفوظ مقام پر کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
اس سے پہلے 15 دسمبر کو عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا تھا کہ آئندہ سماعت پر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری کو یقینی بنائیں۔
11 دسمبر کو عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔
اس سے قبل 5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں خاور مانیکا کے گھریلو ملازم اور کیس کے گواہ محمد لطیف نے بیان قلم بند کرایا تھا، 28 نومبر کو ہونے والی سماعت میں نکاح خواں مفتی سعید اور عون چوہدری نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔
درخواست کا متن
واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔