پاکستان

الیکشن کمیشن شفاف انتخابات یقینی بنائے، سپریم کورٹ

لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
|

انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات یقینی بنائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ اور شعیب شاہین عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر سردار لطیف کھوسہ روسٹرم پر آ گئے، لطیف کھوسہ کے ساتھ سردار کا نام ہونے پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اظہار برہمی کیا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، یہ سردار نواب عدالت میں نہیں چلے گا، آپ کی حکومت نے ہی سرداری نظام ختم کرنے کا قانون بنایا، اب تو آپ کے بیٹے بھی سردار ہو گئے ہیں۔

اس پر لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ اسٹینو نے نام کے ساتھ لکھ دیا، آئندہ احتیاط کروں گا۔

لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ لیول پلینگ فلیڈ صحت مندانہ مقابلے کے لیے ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کی اب درخواست کیا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ یہ توہین عدالت کی درخواست ہے کوئی نیا کیس نہیں، مرکزی کیس 22 دسمبر کو نمٹایا جا چکا، آپ نے درخواست میں بہت سارے توہین عدالت کرنے والوں کے نام شامل کر لیے، الیکشن کمیشن نے کیا توہین عدالت کی؟ کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے کوئی فیصلہ دیا یا صوبائی الیکشن کمیشن کو احکامات دیے؟

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں، اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجیے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں، ہر کوئی یہاں آکر سیاسی بیان شروع کر دیتا ہے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ثبوت کیا ہیں؟ ہمیں کچھ دکھائیں۔

جواب میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا وہ کہیں گے ہمارا تعلق نہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسی نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کاروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں،کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائر کریں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اپیل کرنے کے لیے آر او آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی، اِس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کہا کہ آپ کے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ نے لکھا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا بات ختم، اِس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ 3 دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی، اپیل کہاں کریں؟

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ نے لوگوں کے نام کی جگہ میجر فیملی لکھا ہوا، اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میجر طاہر صادق کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں؟ آراو کے فیصلے کی کاپی نہیں ملتی تو کاپی کے بغیر ٹرابیونل میں درخواست دیں، ہم کیسے دوسرے فریق کو سنیں بغیر آپ کی اپیل منظور کر لیں، ہم کیسے کہہ دیں کہ فلاں پارٹی کے کاغذات منظور کریں اور فلاں کے مسترد؟ آپ بتائیں ہم کیا آڈر پاس کریں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالتیں الیکشن کے لیے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑیں ہیں، آپ ٹریبونل میں اپیلیں دائر کریں، اس کے بعد ہمارے پاس آئیں تو سن لیں گے۔

دریں اثنا عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر بلا کر استفسار کیا کہ ٹربیونل میں اپیل دائر کرنے کا وقت کب تک ہے؟ ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آج آخری دن ہے۔

اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ سے مخاطب ہوتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کھوسہ صاحب ٹربیونل جائیں پھر یہاں کیا کر رہیں ہیں؟

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ہماری شکایت پر الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایات دیں، سارے آئی جیز کا اس لیے اس کیس سے تعلق ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کی شکایات کی کاپی کہاں ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں نے شکایات کی کاپی ساتھ نہیں لگائی، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پھر الیکشن گزر جائیں گے تو کاپی لگا لیجیے گا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری شکایت پر صرف صوبوں کو ایک خط لکھ دیا، کیا الیکشن کمیشن صرف ایک خط لکھ کر ذمہ داریوں سے مبرا ہو گیا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ توہین عدالت کے اسکوپ تک رہیں، یہ بتائیں ہمارے 22 دسمبر کے حکمنامے پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے تو 26 دسمبر کو عملدرآمد رپورٹ ہمیں بھیج دی۔

اس دوران سردار لطیف کھوسہ نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم روز آپ کے لیے نہیں بیٹھ سکتے،آپ کو عملدرآمد رپورٹ مل گئی اس پر جواب دے دیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں زیادہ وقت آپ کا ضائع نہیں کروں گا، اِس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ وقت ضائع کریں ہم رات تک بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کو آپ کے تحفظات دور کرنے کا آڈر جاری کیا، 26 دسمبر کے بعد کہاں کیا ہوا وہ بتائیں؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ میڈیا میں سب کچھ آچکا ہے، دنیا نے سب کچھ دیکھا، اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں تو میڈیا دیکھتا ہی نہیں۔

ہمارا 22 دسمبر سے سخت کوئی اور آرڈر نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس

لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صرف کاسمیٹک عملدرآمد نہیں، آپ بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، آپ نے شفاف الیکشن یقینی بنانے ہیں، الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ میں وہی خط لگائے جو ہماری درخواست میں بھی ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپنی درخواست میں کوئی بھی ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، آپ لکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن پابند ہے صاف و شفاف الیکشن کا، ہم کہتے ہیں ہاں، آپ نے 2013کے الیکشن میں بھی الزامات لگائے، عدالت نے تب بھی وقت ضائع کیا، کوئی ٹھوس الزام نہ نکلا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 35 پنکچر والی بات اسی عدالت میں ہوئی تھی، عدالت نے کہا تھا کہ آرگنائز دھاندلی نہیں ہوئی، اس معاملے کا آج کےحالات سے کوئی موازنہ نہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر آپ نے ہی تعینات کیا تھا ہم نے نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ہمارا 22 دسمبر سے سخت کوئی اور آرڈر نہیں ہوسکتا، آپ نے اس کے بعد الیکشن کمیشن کو کوئی شکایت کی ہو تو بتا دیں۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ آپ انھیں لیول پلینگ فلیڈ دے رہے ہیں؟ ڈی جی لا نے جواب دیا کہ ان کی ہر شکایات کو ہم نے متعلقہ اتھارٹی کو بھیجا جہاں قانون کے مطابق اس پر فیصلے ہوئے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ تاریخ کی بدترین پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، آر اوز دفتر کے باہر سے لوگوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی، میرے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا بنیادی الزام کس پر ہے صرف پنجاب کا مسئلہ ہے، کیا پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل موجود ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کا آگاہ کیا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب موجود نہیں ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے آئی جی کے خلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کے لیے لکھا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے نہیں، اُن کے اپنے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا کہ عمل نہیں ہو رہا۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ کا اپنا صوبائی الیکشن کمیشن لکھ رہا ہے، اس پر آپ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات یقینی بنائے۔

دریں اثنا عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر (8 جنوری) تک ملتوی کردی، سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور آئی جی پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 26 دسمبر کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی تھی۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں الزام لگایا گیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود پی ٹی آئی امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا گیا، صوبائی الیکشن کمشنر کے متعدد خطوط لکھے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

درخواست میں پی ٹی آئی نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ 22 دسمبر کے احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائے، پی ٹی آئی امیدواروں اور رہنماؤں کو گرفتاریوں اور حراساں کرنے سے روکا جائے۔

اس میں استدعا کی گئی کہ عدالتی حکم عدولی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، پی ٹی آئی امیدواروں کو ریلیوں اور جلسوں کی اجازت دی جائے۔

پی ٹی آئی نے توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کرنے کی بھی استدعا کی، درخواست میں چاروں چیف سیکریٹریز، آئی جیز کے علاوہ سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 22 دسمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق درخواست کو نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام شکایات پر فوری ایکشن لے کر انہیں حل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

مقدمے کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے کی تھی۔

ان عدالتی احکامات کے بعد تحریک انصاف کا وفد الیکشن کمیشن پہنچا تھا جہاں ای سی پی نے اسے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابی عمل میں رکاوٹ بننے والے ڈی آر اوز، آر اوز اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

کراچی میں کل سے بوندا باندی، ہلکی بارشوں کی پیش گوئی

دھنیا جس کے بغیر ہماری چٹنیاں اور مصالحے نامکمل ہیں

برطانیہ سے غائب ہونے والے فن پارے لاہور کے کباڑیے کی دکان سے کیسے ملے؟