نقطہ نظر

ہمارے سیاسی رہنما کن خامیوں کا شکار ہیں؟

ایسے رہ نماؤں کو ووٹ ہی کیوں دیں جو 10 لاکھ یا اس سے زیادہ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے لیے کچھ نہیں کرتے جو دن میں 12 گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن سرکاری کی طرف سے نافذ کم از کم اجرت کا صرف ایک تہائی انہیں ادا کیا جاتا ہے؟

کسی ملک میں ڈالرز کی کمی ہونا اتنی بُری بات نہیں ہے جتنی خیالات کا ختم ہوجانا ہے۔ اپنے مستقبل کے رہنماؤں کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان بہت سے راستے تلاش کرسکتا ہے۔ بیلیٹ پیپر پر لوگوں کو ’ان میں سے کوئی نہیں‘ کا انتخاب دے دینا بھی ایسا ہی ایک قدم ہوسکتا ہے۔ اس تحریر میں ہم یہ بتائیں گے کہ شہریوں کو اگلے انتخابات کے لیے ’ان میں سے کوئی نہیں‘ کا اقدام کیوں درست محسوس ہوتا ہے۔

تینوں اہم سیاسی جماعتوں کے موجودہ رہنما آٹھ اہم خامیوں کا شکار ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کو اپنے آپشنز پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ سب سے پہلی خامی یہ ہے کہ ہمارے موجودہ انتخابی امیدوار فرسودہ ماضی کی میراث لےکر چل رہے ہیں۔

وہ آج تک اپنے آپ کو روایتی نظریات، ذاتی عناد، تنگ نظری، سرکاری خرچ پر عمرہ کرنے کی طرح کے کاموں سے آزاد نہیں کرپائے۔ وہ اب بھی حلف ناموں، فوٹو کاپیوں اور گریڈ 17 سے کاغذات اٹیسٹ کروانے کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس ملک کے پیچیدہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے منصوبے، سائنسی مہارت یا اہلیت نہیں ہے۔

دوسری خامی یہ ہے کہ ہمارے انتخابی امیدواروں میں سے کسی میں بھی اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ پچھلی حکومتوں، دیگر جماعتوں یا اداروں پر الزام تراشی اور انہیں قربانی کا بکرا بنانے سے گمان یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے کبھی کسی لیڈر کو کھڑے ہوکر یہ تسلیم کرتے ہوئے نہیں سنا کہ ’میں اپنی ناکامی قبول کرتا ہوں، معذرت چاہتا ہوں اور استعفیٰ دیتا ہوں‘۔

تیسری بات، ہمیں ایسے رہنماؤں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو اداروں کی تعمیر کے بجائے صرف ’ذاتی وفاداریوں کے ذریعے انتظام‘ یا ’منتخب چند لوگوں کی خوشنودی کے ذریعے انتظام‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر اعلیٰ سرکاری افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ اور صوابدیدی فنڈز کے طور پر اربوں کا خرچ رشوت سے بھرے طرز حکمرانی کی صرف دو مثالیں ہیں۔

چوتھا نقطہ، یہ ہمارے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا کہ مستقبل میں ایسا کوئی لیڈر ملے جس کے پاس ملک کی شرح پیدائش یا ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں کوئی اور اعداد و شمار نہ ہوں۔ کوئی بھی رہنما پچھلے ادوار میں اس مسئلے سے نمٹا نہیں ہے اور نہ ہی آبادی کے حوالے سے تشویش ان کے مستقبل کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان آبادی کے حوالے سے فوری اقدامات کے بغیر خطرے میں پڑ جائے گا اور انتخابات میں کھڑے ہونے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اپنے قدامت پسند عقائد اس خطرے کو مزید قریب لے آئیں گے۔

پانچویں، انہیں رہنماؤں کو منتخب کرنا تباہ کن ہوگا جن کی پالیسیاں لاپروائی کی وجہ سے 28 لاکھ سے زائد بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ ان کے پاس اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ کس طرح تمام بچوں کو معقول تعلیم دیں، موجودہ اسکولوں میں کس طرح اصلاحات لائی جائیں اور ہنر، کام کی اخلاقیات اور تعلیم میں تخلیقی صلاحیتوں کو کس طرح بڑھایا جائے۔ ہم ایسے رہنماؤں کو ووٹ کیوں دیں جو نہ تو ہر روز 17 ہزار 435 نئے بچوں کے اضافے کی رفتار کو کم کرسکیں اور نہ ہی اسکول جانے والے بچوں کو اچھی تعلیم فراہم کرسکیں۔

چھٹا، ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں جنہوں نے 32 ہزار روپے کی کم از کم اجرت کے برخلاف کراچی کی سڑکوں پر 15 ہزار روپے ماہانہ پر جھاڑو دینے والے ہزاروں خاکروبوں (جن میں سے 20 فیصد بچے ہیں) کی حالت زار کے حوالے سے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیے؟

ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں جو 10 لاکھ یا اس سے زیادہ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہ دن میں 12 گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن سرکاری کی طرف سے نافذ کم از کم اجرت کا صرف ایک تہائی انہیں ادا کیا جاتا ہے۔ ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں جنہوں نے ریلوے کے ان ہزاروں قُلیوں کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا جو اپنی روزانہ کی کمائی کا ایک تہائی حصہ خون چوسنے والے ریلوے ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتے ہیں؟ پاکستانیوں کو ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دینا چاہیے جو اشرافیہ کی بھاری مراعات اور پنشن کم کرنے کے بجائے غربا پر امیروں کو فوقیت دیتے ہیں؟

ساتویں خامی، موجودہ حکمرانوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے، پینشن میں اصلاحات لانے، تمام شہریوں سے ٹیکس ریٹرن فائل کروانے یا دستاویزی معیشت کو فعال کرنے جیسے سنجیدہ مالیاتی اقدامات کرنے کی کوئی دلچسپی یا صلاحیت موجود نہیں ہے اور اس حوالے سے جو معمولی کام کیا جاتا ہے وہ بھی ڈونر ایجنسیوں کے دباؤ پر بے دلی سے کیا جاتا ہے۔

آخڑی بات، وہی لیڈر ہیں جو سرکاری محکموں میں ہزاروں ملازمین بھرتی کرتے ہیں اور سیکڑوں سینیئر بیوروکریٹس پر سیاسی احسان کرکے انہیں ترقی دیتے ہیں۔ ہم نے انسانی وسائل کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری محکموں کے ساتھ ہمارے ملک کے ہر سرکاری محکمے کا موازنہ کیا، ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے ان محکموں میں ضرورت سے کم از کم 5 گنا زیادہ ملازمین ہیں۔

ایک شہری کی جانب سے حال ہی میں ’معلومات کے حق‘ کی درخواست دائر کی گئی جس سے انکشاف ہوا کہ ہماری سپریم کورٹ 16 معزز ججز اور 687 مستقل ملازمین کے ساتھ کام کرتی ہے۔ برطانیہ کی سپریم کورٹ کو ایسی ہی ایک درخواست موصول ہوئی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہاں کی سپریم کورٹ میں 12 ججز کے لیے صرف 64 ملازمین کام کرتے ہیں۔

انتخابات میں حصہ لینے والا کوئی بھی رہنما یہ نہیں سمجھتا کہ ہمارے خراب حکومتی معاملات اور محکموں کی بدترین حالت کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیرفعالیت کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ ہمیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس بڑے بیوروکریٹک نظام کو ازسرِنو تشکیل دیں اور ایک چھوٹا، مؤثر اور ڈیجیٹل حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیں۔ بیلیٹ پیپر پر ’ان میں سے کوئی نہیں‘ کے انتخاب کے حوالے سے بھارت کے ڈکوٹا قبائل سے پاکستان کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اس قبیلے کا ماننا تھا کہ ’جب آپ کو پتا چلے ہے کہ آپ مردہ گھوڑے پر سوار ہیں، تو بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ آپ نیچے اتر جائیں‘۔


یہ مضمون 29 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

نعیم صادق

لکھاری ایک انڈسٹریئل انجینئر، رضاکار اور سماجی کارکن ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔