’اوپن ٹرائل سے ریاست کی سیکیورٹی کو خطرہ نہیں‘، سائفر کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری
سائفر کیس کی آج ہونے والی سماعت سے متعلق جاری تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اوپن ٹرائل سے ریاست کی سیکیورٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جانب سے جاری کردہ 9 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ٹرائل کورٹ کا 14 دسمبر کا آرڈر چیلنج کیا تھا جس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے استغاثہ کی درخواست پر ٹرائل کو ان کیمرہ قرار دیا گیا تھا، حکم نامے کے ذریعے ٹرائل کورٹ نے میڈیا کو کیس کی رپورٹنگ اور تشہیر سے بھی روک دیا تھا۔
اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے اس مد میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پیمرا کو بھی ہدایات جاری کیں تھی، ٹرائل کورٹ نے ملزمان کے اہل خانہ کو بھی کیس کی کارروائی کو میڈیا پر بیان کرنے سے روک دیا تھا، درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ٹرائل کورٹ کا یہ اقدام ملزمان کے شفاف ٹرائل کے حق کے منافی ہے، سائفر چالان کا حصہ ہی نہیں اس لیے اوپن ٹرائل سے ریاست کی سیکیورٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ سیکشن 14 کے تحت مکمل ٹرائل کو ان کیمرہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اگر کسی گواہ کا بیان خفیہ رکھنا مقصود ہو تو اس کی حد تک ان کیمرہ قرار دیا جاسکتا ہے، ٹرائل کورٹ کی جانب سے غیر ضروری جلد بازی کے ساتھ ٹرائل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 14 دسمبر سے 21 دسمبر کے درمیان ٹرائل کی کارروائی کو ان کیمرہ رکھا گیا، 21 دسمبر کے بعد ٹرائل کی کارروائی کو اوپن ٹرائل قرار دے دیا گیا، استغاثہ کے 4 گواہان کے بیانات کو پبلک کے سامنے ریکارڈ نہیں کیا جاسکتا تھا، استغاثہ کے یہ 4 گواہ وزارت خارجہ کے ملازم تھے اور سائفر آپریشنز سے منسلک تھے، اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ان 4 گواہان کے علاوہ دیگر 9 گواہان کے بیانات پر اوپن کورٹ میں جرح ہوسکتی تھی۔
حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کی گزارشات سے یہ بات صاف ہے کہ ٹرائل کورٹ نے غیر ضروری طور پر گواہان کے بیانات ان کیمرہ ریکارڈ کیے، اس بات کا فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ آیا ٹرائل کورٹ نے کارروائی دوبارہ اوپن قرار دینے کے لیے اپنے 14 دسمبر کے حکم نامے پر نظر ثانی کی؟
اس سوال کے جواب میں پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے ٹرائل کورٹ کے 23 دسمبر کے حکم نامے پر توجہ مبذول کرائی، 23 دسمبر کے حکم نامے میں یہ تاثر دیا گیا کہ ٹرائل کورٹ استغاثہ کی درخواست پر کارروائی ان کیمرہ قرار دے سکتی ہے، صرف استغاثہ کی جانب سے درخواست ٹرائل کی کارروائی کو ان کیمرہ قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔
اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا 23 دسمبر کا حکم نامہ کسی طرح بھی 14 دسمبر کے حکم نامے پر نظر ثانی شمار نہیں کیا جاسکتا،درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کی تصدیق شدہ کاپی ان کے پاس موجود ہے، درخواست گزار کے وکیل کے اس دعوے نے عدالت اور اٹارنی جنرل کو بھی حیران کردیا، درخواست گزار وکیل نے ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کی کاپیاں عدالت میں پیش کردیں جو اب ریکارڈ کا حصہ ہیں،
حکم نامے کے مطابق عدالت میں پیش کی گئی 25 گواہان کے بیانات کی تصدیق شدہ کاپیوں میں ان کے استعمال پر قدغن کا کوئی ذکر نہیں، اب ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کی کاپیاں بھی پبلک ہوچکی ہیں، عدالت ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کو دیکھ کر فیصلہ کرے گی کہ کیا یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں یا نہیں، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے سائفر کیس کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر چلائی جارہی ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم اب نافذ العمل نہیں رہا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بھی ٹرائل کورٹ روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل آگے بڑھا رہی ہے، ٹرائل کی کارروائی کو امر واقعہ بننے سے روکنے کے لیے آئندہ سماعت تک حکم امتناع جاری کیا جاتا ہے، کیس کی سماعت 11 جنوری 2024 تک ملتوی کی جاتی ہے۔