پاکستان

یورپ میں پروازوں کی منسوخی سے سالانہ 76 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، سیکریٹری سول ایوی ایشن

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس سارے معاملے پر تحقیقات کی تھیں، لائسنس منسوخ ہونے پر پائلٹ کے پاس اپیل کا حق ہے، ڈی جی سی اے اے

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سیکریٹری نے کہا ہے کہ یورپ میں پروازوں کی منسوخی سے سالانہ 76 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق سینیٹر طاہر بزنجو کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی قواعد و ضوابط و استحقاق کا اجلاس منعقد ہوا، نگران وزیرمرتضیٰ سولنگی اور مشیر ہوا بازی فرحت حسین ملک اجلاس میں شریک ہوئے، اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی(ڈی جی سی اے اے) کے خلاف تحریک استحقاق کا معاملہ زیرِ بحث آیا، مشیر ہوا بازی نے بتایا کہ مجموعی طور پر 83 پائلٹ کے لائسنس کا مسئلہ تھا، 33 کے لائسنس معطل ہوئے تھے۔

ڈی جی سی اے اے کا کہنا تھا کہ 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی تھی، فرحت حسین نے بتایا کہ قانون لائسنس کینسل کرنے پر ڈی جی سی اے اے کی پاور پر خاموش ہے، اس مسئلے پر اب نئے رولز بنانے پڑیں گے۔

اس موقع پر سینیٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ رولز کب سے نہیں بنے؟ یہ تشویشناک بات ہے، سیکریٹری سول ایوی ایشن نے جواب دیا کہ پاکستان میں ائیر کرافٹ حادثات کی ایک سیریز چلی جس کی وجہ سے یہ مسئلہ اجاگر ہوا، یورپی یونین نے پاکستانی ائیر لائنز پر امریکا میں فلائنگ آپریشنز پر خدشات ظاہر کیے تھے۔

سینیٹر علی ظفر نے سوال کیا کہ لائسنس کینسل کرنے کی وجوہات کیا رولز میں درج ہیں؟ ڈی جی سی اے اے نے بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس سارے معاملے پر تحقیقات کی تھیں، لائسنس منسوخ ہونے پر پائلٹ کے پاس اپیل کا حق ہے، 33 کیسز میں ایف آئی اے نے ایف آئی آر درج کی ہوئی تھیں۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ لائسنس کو منسوخ کرنے کی سمری کابینہ میں ایوی ایشن حکام ہی لے کر جاتے ہیں، آپ نے وزیراعظم کو بھی غلط گائد کیا ہوگا، آپ نے 15 دن مانگے تھے، لیکن ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔

ڈی جی سی اے اے نے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا بالکل غلط ہے، بعد ازاں سول ایوی ایشن حکام نے رولز بنانے اور معاملہ کے حل کے لیے کمیٹی سے مزید وقت مانگ لیا، اس موقع پر سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر وقت مانگ رہے ہیں تو اگلے اجلاس میں روایتی رپورٹ قبول نہیں کریں گے۔

سینیٹر علی ظفر نے بتایا کہ اگلی بار جو رپورٹ لے کر آئیں وہ ون پیج ہو، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ایوی ایشن حکام کو مزید وقت دینے کی مخالفت کردی، انہوں نے اس موقع پر کہا کہ کسی کے پاس اخلاقی جرات ہی نہیں کہ غلطی کو مان سکے، ہم سے ان لوگوں نے رپورٹ بنوائی، اتنا کام کرایا اور اب یہ اسے نہیں مان رہے ہیں۔

سیکریٹری سول ایوی ایشن نے کہا کہ یو کے میں پروازیں منسوخ ہونے سے 50 ارب سالانہ نقصان ہو رہا ہے، یورپ میں پروازوں کی منسوخی سے سالانہ 76 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جعلی طریقے سے حاصل کردہ لائسنس کو بحال کرنے سے عالمی ایجنسیوں کو کیسے مطمئن کریں گے؟

سیکریٹری ایوی ایشن کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں کچے کا آپریشن جاری تھا، خبریں آئی تھی کہ ڈاکوؤں سے میزائل پکڑے گئے ہیں جس پر جرمنی اور دیگر ممالک نے خدشات ظاہر کیے تھے، سینیٹر ہمایوں مہمند نے بتایا کہ سندھ پولیس نے بیان دیا تھا کہ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس میزائل اور بکتر بند گاڑیاں ہیں۔

یاد رہے کہ پائلٹس کے لائسنس منسوخی کا معاملہ اس وقت اجاگر ہوا جب 2020 میں کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور نے یہ دعوی کیا تھا کہ اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر 860 فعال پائلٹس ہیں ، اس حوالے سے گریڈ 22 کے افسر کے ذریعے انکوائری کروائی گئی جس کے مطابق 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے ہیں جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں کہ 860 میں سے 262 یعنی تقریباً 30 فیصد پائلٹس ایسے ہیں جن کے لائسنسز جعلی ہیں جنہوں نے خود امتحان نہیں دیا ان کافلائنگ کا تجربہ ہی نہیں، اس کے بعد پی آئی اے نے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

25 جون 2020 کو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو طلب کرتے ہوئے ملک کی مختلف ایئرلائنز کے کچھ پائلٹس کے جلعی لائسنس کے الزامات کی وضاحت کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر کو ہدایت کی گئی کہ اس حوالے سے 2 ہفتوں میں سپریم کورٹ میں جامع رپورٹ جمع کروائی جائے اور 3 ہفتے بعد کیس کی سماعت میں پی آئی اے، ایئر بلیو، سرین کے چیف ایگزیکٹو افسران کو پیش ہو کر اپنی ایئرلائنز سے منسلک پائلٹس کی پیشہ ورانہ قابلیت کے حوالے سے رپورٹس جمع کروانے کا بھی حکم دیا گیا۔

سی اے اے اور پی آئی اے کی ساکھ کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) نے ’لائسنس دینے اور ایوی ایشن ریگولیٹر کی جانب سے حفاظتی نگرانی میں سنگین خامیوں‘ پر تحفظات کا اظہار کیا۔

بعد ازاں 26 جون 2020 کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے کہا تھا کہ کمرشل پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آیا اور یہ صرف قومی ایئرلائن سے متعلق نہیں ہے۔

16 جولائی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بتایا تھا کہ پائلٹس کو جاری کیے گئے تمام لائسنس درست ہیں۔

6 اگست 2020کو پی آئی اے کے معطل 28 پائلٹس بحال ہوگئے تھے، دسمبر 2020 تک 110 پائلٹس کو بحال کردیا گیا تھا۔

کراچی :پرانا گولیمارمیں پولیس، رینجرز، اینٹی نارکوٹکس فورس کا مشترکہ گرینڈ آپریشن، متعدد افراد گرفتار

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری گھوٹکی پہنچ گئے

خیبرپختونخوا میں بانی پی ٹی آئی سمیت بڑے بڑے سیاستدان الیکشن کمیشن کے نادہندگان میں شامل