نقطہ نظر

افغان مہاجرین کو پاکستان کے تعلیمی نظام میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

'وہ جب ہمارے چہروں کو دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ جیسے ہم یا تو نان بنانے یا ان کی سڑکیں صاف کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں'۔

’جب سے تم یہاں ہجرت کرکے آئے ہو، لوٹ مار کی وارداتوں میں واضح اضافہ ہوا ہے‘، 20 سالہ کاظم* کے مطابق اس نے اپنی پوری زندگی یہی باتیں سنی ہیں۔

’میں بتا نہیں سکتا کہ نہ جانے یہ جملہ میں کتنی بار سن چکا ہوں۔ یہ اس نسل پرستی کی مثال ہے جس کا سامنا ہم روز کرتے ہیں اور ہمارے اپنے دوست ہی ہمارے بارے میں یہ جملے کہتے ہیں‘، یہ کہنا تھا کاظم کا جس نے حال ہی میں کراچی کے معروف نجی انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا ہے۔

کاظم کے والدین پناہ گزین کے طور پر پاکستان آئے تھے۔ اس کے والدین اب رجسٹرڈ پناہ گزین ہیں جبکہ کاظم خود پاکستان کی شہریت رکھتا ہے لیکن پھر بھی غیرقانونی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے حکومتی فیصلے نے پاکستان کے افغان خاندانوں کے لیے شدید مشکلات کو جنم دیا ہے۔ اس حکومتی فیصلے کے مدِنظر ہزاروں کی تعداد میں افغان پناہ گزین پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ جو لوگ یہاں رہ گئے ہیں، ان کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہے۔

’ہمیں قبول نہیں کیا گیا‘

پاکستان میں افغان شہریوں اور پناہ گزینوں کی اکثریت کے لیے نسل پرست جملے اور تبصرے ایک عام سی بات ہے۔ ملک بھر میں افغان طلبہ کے ساتھ میری بات چیت ہوئی جس میں انہوں نے بار بار یہی بات کی کہ انہیں پاکستان سے وابستگی کا احساس نہیں ہوتا۔

کاظم یاد کرتے ہیں کہ ’جب میں چھوٹا تھا تو میرے محلے کے بچے میرے ساتھ نہیں کھیلتے تھے۔ ان کے ذہنوں میں نفرت کا بیج ان کے گھر کے بڑوں نے بویا تھا۔ میرے لیے سب سے افسوس ناک تجربہ وہ تھا جب بچوں نے مجھے کچرے میں پھینکا تھا کیونکہ ان کے مطابق یہی میرا مستقبل تھا‘۔

پاکستان کے دیگر افغان طلبہ کی طرح کاظم کو بھی پاکستان کی شہریت رکھنے کے باوجود ’غیرقانونی‘ پناہ گزین سمجھا جاتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’میری تمام کوششوں کے باوجود مجھے پناہ گزین ہی سمجھا گیا۔ اس شہر میں ہونے والے ہر جرم کے لیے مجھے موردِ الزام ٹھہریا جاتا تھا۔ اگرچہ ہم اپنی زندگی امن و سکون سے گزارنا چاہتے تھے لیکن لوگوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ موقع ملنے پر وہ مجھے اور میرے گھر والوں کو ملک بدر کردیں‘۔

’جب میں محض 8 سال کا تھا تب مجھے پہلی بار افغان ہونے پر نسل پرستی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک دن میں کلاس میں داخل ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے ساتھ وہ نوٹ بُک لانا بھول گیا جس میں ہوم ورک کیا تھا۔ میں ٹیچر کے پاس گیا لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’سزا کے طور پر میں تمہیں تمہارے ملک واپس بھیج دوں گی جہاں طالبان تمہاری ہڈیاں توڑ دیں گے‘ اور یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگیں۔ میں شدید خوفزدہ ہوگیا۔ میں اس دن روتے ہوئے گھر آیا اور میری والدہ بتاتی ہیں کہ میں نے اس پورے دن کھانا نہیں کھایا‘۔

غیرقانونی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے حکومتی حکم کے بعد سے قانون نافذ کرنے والے ادارے افغان خاندانوں کے گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور انہیں ہراساں کررہے ہیں۔ خوف کی وجہ سے کاظم کی فیملی اپنی دستاویزات کو سامنے ہی رکھتی ہے تاکہ ممکنہ چھاپے کی صورت میں وہ ہردم تیار رہیں۔ کاظم کہتے ہیں ’ہم اپنی تمام دستاویزات کو ڈرائنگ روم کی ٹیبل پر رکھتے ہیں تاکہ انہیں ثبوت دے سکیں کہ ہم یہاں قانون کے مطابق رہ رہے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی ہماری قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا‘۔

کیا پناہ گزین ہونا تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

23 سالہ فاطمہ* خیبرپختونخوا کے معروف میڈیکل کالج میں زیرِتعلیم ہیں، وہ بھی ہمیں کاظم سے ملتی جلتی کہانی سناتی ہیں۔ ’میرے چہرے کی وجہ سے لوگ پہچان جاتے ہیں کہ میں افغان ہوں جس کی وجہ سے مجھے شدید نسل پرست رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے مجھے تھراپی بھی لینا پڑی۔ ہم لوگوں میں اکثریت کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ مجھے کبھی بھی نہیں لگا کہ میں یہاں اس ملک سے تعلق رکھتی ہوں حالانکہ میرے والدین ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں پناہ دے کر ہم پر احسان کیا ہے‘۔

فاطمہ ایک ہونہار طالبہ اور پاکستان میں قانونی پناہ گزین ہیں۔ اپنے بہترین تعلیمی ریکارڈ اور عزم کی بنیاد پر وہ ماہرِ نفسیات بننا چاہتی ہیں۔ اپنی جماعت کے 10 بہترین طلبہ میں شامل ہونے کے باوجود، خود پر لگے افغان پناہ گزین کے ٹھپے کی وجہ سے وہ اسکالرشپ سے محروم ہیں۔

اس کے علاوہ دستاویزی مسائل کی وجہ سے ان کی تعلیم میں ایک سال کا وقفہ بھی آیا تھا جوکہ ان کے تعلیمی ریکارڈ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ ’میرے داخلے کے وقت دستاویزی مسائل بہت زیادہ تھے۔ یہ نفسیاتی بوجھ تھا کیونکہ مجھے اپنی دستاویزات کو متعدد جگہوں سے اٹیسٹ کروانا پڑتا تھا اور ہر جگہ مجھے یہ ثبوت دینا پڑتا تھا کہ میں قانونی پناہ گزین ہوں۔ اس کے بعد داخلہ امتحان کے لیے خود کا اندراج کروانا پڑا جس نے مجھے نفسیاتی طور پر مزید تھکا دیا۔ میری طرح کے لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ تعلیم ہی حاصل نہ کریں کیونکہ ہمارے لیے داخلہ عمل میں بار بار رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہتی ہیں‘، یہ کہتے ہوئے فاطمہ کی آواز بھر آئی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’سب جانتے ہوئے میں نے خیبرپختونخوا میں میڈیکل اور ڈینٹل داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی اپنے دستاویزات تیار کر رکھے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ دیگر طلبہ کے مقابلے میں میری دستاویزات کی جانچ پڑتال میں زیادہ وقت لگے گا، اس لیے میں نظام کو شکست دینا چاہتی تھی۔ 15 دنوں کے لیے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا اور میں پہلے ہی دن اپنے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لیے دفتر پہنچ گئی۔ انہوں نے ’تصدیق‘ اور ’دوبارہ چیک کرنے‘ (یہ ان کے الفاظ تھے میرے نہیں) کے لیے میرے دستاویزات اپنے پاس رکھ تو لیے لیکن دستاویزات کو آگے متعلقہ حکام تک نہیں بھیجا۔ نتیجتاً داخلہ ٹیسٹ میں شرکت کے لیے مجھے رجسٹر نہیں کیا گیا‘۔

فاطمہ بتاتی ہیں کہ 2019ء میں داخلہ ٹیسٹ میں شرکت نہ کرپانے کی وجہ سے انہیں اگلے سال اس میں شرکت کرنے کے لیے ایک سال انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران وہ اس قدر نفسیاتی دباؤ کا شکار تھیں کہ انہیں تھراپی کا سہارا لینا پڑا۔ ہماری مختصر گفتگو کے دوران انہوں نے تین دفعہ وقفہ لیا کیونکہ وہ بار بار جذبات میں آکر رو رہی تھیں۔

وہ کہتی ہیں ’ایک سال کی اذیت کے بعد بھی میری مشکلات میں کمی نہیں آئی۔ اپنے مطلوبہ میڈیکل کالج میں داخلے کے بعد مجھے کہا گیا کہ میں میرٹ پر اسکالر شپ حاصل کرنے کی اہل نہیں ہوں۔ کیا یہ حیران کُن ہے کہ اس کے لیے بھی وجہ میرا پناہ گزین ہونا تھا؟ میرے تعلیمی ریکارڈز انتہائی شاندار تھے۔ میرے نمبرز شاندار تھے لیکن چونکہ میرے والد ہجرت کرکے آئے تھے اس لیے مجھے میرے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا‘۔

فاطمہ بتاتی ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کو روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’وہ جب ہمارے چہروں کو دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ جیسے ہم یا تو نان بنانے یا ان کی سڑکیں صاف کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم ان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے مستحق نہیں یا ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم ان کی جیسی زندگی گزارنے کی خواہش بھی کریں‘۔

ذہین اور قابل افغان طلبہ میں شایان* بھی شامل ہے۔ وہ فائن آرٹس کا طالب علم ہے جس نے پاکستان کی شہریت بھی حاصل کررکھی ہے۔ سبز آنکھوں والا 22 سالہ شایان کہتا ہے کہ اس نے اپنے تمام دکھ درد کو رنگوں میں ڈھال لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے فن پارے بھی انہیں مصائب کی عکاسی کرتے ہیں جن کا اس ملک میں شایان نے سامنا کیا۔

شایان بتاتا ہے کہ ’حال ہی میں، میں اور میرا دوست ڈرائیو پر نکلے تھے۔ راستے میں اس نے مذاق میں مجھ سے کہا کہ ’کیا میں تمہیں ڈیٹینشن سینٹر چھوڑوں یا تم خود جاؤ گے؟

’اس کے یہ الفاظ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ حالانکہ مجھے پتا تھا کہ مجھے ڈیٹینشن سینٹر میں نہیں ڈالا جائے گا لیکن اس وقت میں اس گاڑی سے اترنا چاہتا تھا۔ اس طرح کے ’مذاق‘ میں اپنے دوستوں سے وقتاً فوقتاً سنتا رہتا ہوں‘۔

2021ء میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے افغانستان میں آرٹس کے شعبہ جات میں ڈگریاں اس طرح نہیں دی جاتیں جیسے پہلے دی جاتی تھیں۔ صرف کابل یونیورسٹی میں آرٹس شعبے کے میجر مضامین آٹھ ہوا کرتے تھے جو اب کم ہوکر دو رہ گئے ہیں۔ جو آرٹ مضامین ابھی دستیاب ہیں ان میں بھی سخت پابندیاں اور ضابطے ہیں جیسے کیلیگرافی اور اسلامی آرٹ پر زور دیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے طلبہ کے پاس ہنر سیکھنے کے انتہائی محدود آپشنز موجود ہیں۔ دسمبر 2022ء میں طالبان حکمران، جامعات میں خواتین کے داخلوں پر پابندی لگا چکے ہیں۔

’مجھے متعدد بار میرے اساتذہ، دوستوں، حتیٰ کہ اجنبی لوگوں نے کہا ہے کہ مجھے اپنے ملک واپس چلے جانا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ جس گھڑی میں ’اپنے ملک‘ یعنی افغانستان میں قدم رکھوں گا، مجھے میرے بنائے ہوئے فن پاروں کی وجہ سے قتل کردیا جائے گا۔ مجھے میرے گیٹار سمیت زمین میں دفن کردیا جائے گا اور پھر سالوں تک لوگ ایسے گنہگار کی داستانیں سنائیں گے جسے اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ اس نے یہاں کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کی جرات کی تھی۔ اب آپ مجھے خود بتائیں کہ کیا آپ مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ مجھے اس جہنم میں بھیجنا چاہتے ہیں؟‘ شایان نے سوال کیا۔

پالیسیز اور مضامین کا انتخاب

ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے پبلک کالجز اور یونیورسٹیز میں پناہ گزین کوٹے کے تحت تقریباً 5 ہزار طلبہ کو رجسٹر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ پبلک سیکٹر کی جامعات میں غیرملکی طلبہ کے لیے کوٹا مختص ہے جن میں افغان طلبہ کے لیے ریزرو نشستیں بھی ان کے میجر مضامین کے مطابق مختص کی گئی ہیں۔

کراچی کی نجی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ایڈوائزر کہتی ہیں ’عموماً ہمارے ہاں افغان طلبہ لبرل آرٹس کے میجر مضامین جیسے کمیونکیشن اینڈ ڈیزائن، فائن آرٹس یا موسیقی، یا پھر سائنس میں کمپیوٹر سائنس کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب ہم انٹرویو میں ان سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ان مضامین کا انتخاب کیوں کررہے ہیں تو اس پر ان کا جواب ہوتا ہے کہ ’یہ مضامین ہم اپنے ملک میں نہیں پڑھ سکتے‘۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے جامعہ کراچی کی فارن اسٹوڈٹ ایڈوائزر کا کہنا تھا کہ ’جامعہ کراچی میں اس وقت تقریباً 150 افغان طلبہ پڑھ رہے ہیں جوکہ زیادہ تر سوشل سائنس کے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس وقت جینڈر اسٹڈیز کی کلاس میں تقریباً 20 افغان طلبہ زیرِتعلیم ہیں جوکہ رواں سال گریجویٹ ہوں گے‘۔

نظام میں موجود رکاوٹوں اور نسل پرست رویوں کا سامنا کرنے کے باوجود افغان طلبہ اپنے لیے بہتر زندگی بنانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ وہ ان متعلقہ مضامین میں پڑھنا چاہتے ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے کا انہیں شوق ہے، تاکہ وہ تبدیلی لاسکیں اور دیگر پاکستانی طلبہ کی طرح آزادی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ جہاں ایک جانب افغان طلبہ آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں وہیں اب پاکستان کے لیے بھی وقت ہے کہ مستقبل پر توجہ دے۔


*رازداری کے لیے طلبہ کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔


ہیڈر: اکتوبر 2013ء، لاہور میں موجود افغان پناہ گزین کیمپ میں طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں—تصویر: مرتضیٰ علی/شٹر اسٹاک


یہ مضمون 26 دسمبر 2023ء کو ڈان پرزم میں شائع ہوا۔

علیزے فاطمہ

علیزے فاطمہ فارمسسٹ اور صحافی ہیں۔ آپ کا ایکس ہینڈل dalchawalorrone@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔