نقطہ نظر

سیاسی جماعتیں ماضی میں کن نشانات پر الیکشن لڑتی رہی ہیں؟

انتخابی نشان کے سیاسی جماعت کی شاخت ہونے کے باوجود بڑی سیاسی جماعتیں مختلف انتخابی نشانات پر انتخاب لڑتی رہی ہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان اس کی سیاسی پہچان یا شاخت تصور ہوتا ہے اور اسی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقبول انتخابی نشان پر ہی قومی انتخابات میں حصہ لیں۔ اس لیے کبھی کبھار سیاسی جماعت کو اپنے انتخابی نشان برقرار رکھنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے۔

انتخابی نشان کے سیاسی جماعت کی شاخت ہونے کے باوجود بڑی سیاسی جماعتیں مختلف انتخابی نشانات پر انتخاب لڑتی رہیں۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کو کبھی اپنا انتخابی نشان الیکشن کمیشن میں دستیاب نشانات نہ ہونے کی وجہ سے تبدیل کرنا پڑا تو کبھی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے نئے انتخابی نشان پر میدان میں اتریں۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابی نشان کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دی تو کبھی نشان واپس لینے پر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا۔

پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں مختلف انتخابی نشانات پر قومی انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک انتخابی نشان کو مختلف امیدوار ملتے رہے۔ سائیکل کا انتخابی نشان بھی ایک انتخابی اتحاد کے علاوہ دو سیاسی جماعتوں کے پاس رہا۔ جس انتخابی نشان یعنی لالٹین پر 1970ء میں مسلم لیگ نے انتخاب لڑا وہ انتخابی نشان اب عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ہے۔

جنرل ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب ہوا تو جنرل ایوب خان پھول اور فاطمہ جناح لالٹین کے انتخابی نشان پر ایک دوسرے مدمقابل تھے۔ لالٹین کا یہ انتخابی نشان بعد میں 1970ء کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ کے حصہ میں آیا۔ انہی انتخابات میں عوامی لیگ کو کشتی اور جماعت اسلامی کو ترازو کا انتخابی نشان ملا تو نوزائیدہ جماعت پیپلز پارٹی تلوار کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اتری۔

1977ء میں پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تو تلوار رہا لیکن دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی اتحاد بنایا اور نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد کو انتخابی نشان ہَل ملا۔ اس طرح انتخابی اتحاد کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا انتخابی نشان چھوڑنا پڑا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں تلوار اور ہل کے انتخابی نشانات پر ہی تمام تر توجہ مرکوز رہی۔ آٹھ برس کے طویل عرصے کے بعد قومی انتخابات کروائے گئے لیکن 1985ء کے یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے جن کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا۔ انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کو انفرادی حیثیت سے انتخابی نشان ملے۔

ان انتخابات میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے اور ان کو پیشے کی نسبت سے انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے۔ اپنے وقت کے فاسٹ باؤلر اور قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی سرفراز نواز نے ان انتخابات میں حصہ لیا۔ الیکشن کمیشن نے انہیں بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیا۔ سرفراز نواز انہیں انتخابات میں لاہور سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1985ء کے انتخابات میں فلم اور ٹی وی کے ممتاز اداکار قوی خان انتخابی میدان میں اترے اور انہیں الیکشن کمیشن نے ٹی وی سیٹ کا انتخابی نشان دیا۔ اسی طرح صحافی ظہور احمد شہید کو اُن کے شعبے کی نسبت سے قلم دوات کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا۔

غیر جماعتی بنیادوں پر قائم ہونے والی اسمبلی کو صدر جنرل محمد ضیا الحق نے مئی 1988ء میں اپنے آئینی اختیارات کے تحت تحلیل کر دیا اور 1988ء میں ہونے والے قومی انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہوئے۔ پیپلز پارٹی 1988ء میں جب قومی انتخابات کے لیے میدان میں اتری تو اس کو انتخابی نشان تلوار نہیں ملا۔ الیکشن کمیشن نے تلوار کو انتخابی نشانات کی فہرست سے ختم کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کو اپنے مقبول ترین نشان تلوار کی جگہ نیا انتخابی نشان تیر چنا پڑا۔

2002ء میں پیپلز پارٹی کی جگہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینرز الیکشن کمیشن میں رجسٹر کروائی گئی تو تیر کا انتخابی نشان تین پی سے چار پی کو منتقل ہوگیا یعنی پاکستان پیپلز پارٹی سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینرز کے پاس چلا گیا۔ پیپلز پارٹی نے دو انتخابات تلوار اور چار انتخابات تیر کے انتخابی نشان پر لڑے۔ اب تک پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینرز بھی چار مرتبہ ہی تیر کے انتخابی نشان پر میدان میں اتر چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کا مقابلہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد آئی جے آئی یعنی اسلامی جمہوری اتحاد سے ہوا۔ ماضی کی طرح اس انتخابی اتحاد کو ہل کی جگہ سائیکل کا انتخابی نشان ملا۔

تیر کا انتخابی نشان تو اب تک پیپلز پارٹی کے پاس ہے لیکن سائیکل کا انتخابی نشان آئی جے آئی کے بعد دو سیاسی جماعتوں کے حصہ آچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قیام کے بعد نواز شریف کے نام پر قائم ہونے والی مسلم لیگ کو انتخابی نشان شیر ملا اور مسلم لیگ (ن) نے 1993ء سے اب تک تمام انتخابات اسی انتخابی نشان پر لڑے ہیں۔ سائیکل کا انتخابی نشان پہلے مسلم لیگ جونیجو کے پاس رہا اس کے بعد مسلم لیگ (ن) سے ایک نئی مسلم لیگ نے جنم لیا۔ نئی لیگ یعنی مسلم لیگ (ق) کو سائیکل کا نشان دیا گیا جو اب بھی اسی کے پاس ہے۔

جماعت اسلامی نے 1970ء میں تراوز کے انتخابی نشان پر انتخاب لڑا اور پھر دوبارہ 40 سال کے بعد 2013ء میں یہ انتخابی نشان ملا۔ جماعت اسلامی نے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے 10 انتخابات میں سے دو کا بائیکاٹ کیا پہلا بائیکاٹ 1997ء اور دوسرا 2008ء کے انتخابات کا کیا۔ اس کے علاوہ چار انتخابات سیاسی اتحاد میں شامل ہو کر لڑے۔ جماعت اسلامی 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد یعنی پی این اے کا حصہ تھی 1988ء اور 1990ء میں آئی جے آئی میں رہی اور 2002ء کا انتخاب دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے یا متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے لڑا۔

اس طرح ان کا ایک اتحاد میں انتخابی نشان ہل، دوسرے اور تیسرے میں سائیکل جبکہ چوتھے میں کتاب رہا۔ 1993ء میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا اور اُس وقت فرنٹ کو انتخابی نشان کار الاٹ کیا گیا۔ یہ وہی دور تھا جب یہ نعرہ مقبول ہوا تھا کہ ’ظالمو قاضی آرہا ہے‘۔

جس طرح پیپلز پارٹی نے تلوار کے نشان پر دو انتخابات پر حصہ لیا اسی طرح تحریک انصاف بھی بلے کے انتخابی نشان پر دو مرتبہ انتخاب لڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 1970ء اور 1977ء کا انتخاب تلوار کے انتخابی نشان پڑا جبکہ تحریک انصاف نے 2013 اور 2018 کا انتخاب میں بلے کے نشان پر حصہ لیا۔ 1997ء میں تحریک انصاف نے انتخابی سیاست میں حصہ لیا تو اس کا انتخابی نشان چراغ تھا۔

تحریک انصاف نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس میں حصہ نہیں لیا۔ 2013ء میں تحریک انصاف کی یہ خواہش تھی کہ اسے تراوز کا انتخابی نشان الاٹ کیا جائے کیونکہ یہ اُن کی جماعت کے نام سے مطابقت رکھتا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کی درخواست پر یہ انتخابی نشان اس بنیاد پر جماعت اسلامی کو دے دیا کہ 1970ء میں وہ اس نشان پر انتخاب لڑ چکی ہے۔

الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر اس سے بلے کا نشان واپس لیا لیکن تحریک انصاف کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔ اس طرح تحریک انصاف کو دوبارہ بلے کا نشان مل گیا ہے۔

عباد الحق

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔