لگتا ہے اے این پی سے بھی انتخابی نشان چھین لیا جائے گا، امیرحیدر ہوتی
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح نوازشریف صاحب کو نااہل کرنے کے لیے جہانگیر ترین صاحب کو بھی نااہل کرنا پڑا تھا، اسی طرح لگتا ہے کہ ایک پارٹی سے انتخابی نشان لینے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی سے بھی انتخابی نشان لے لیا جائے گا۔
صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے۔56 میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ قانون کے تحت پانچ سال کے اندر انتخابات کرانے ہوتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات مئی 2019 میں ہوئے تھے اور ہمارے پانچ سال مئی 2024 میں مکمل ہونے ہیں اور 8 فروری کو عام انتخابات کے بعد ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات کا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عام انتخابات وقت پر نہیں ہو رہے اور اسی وجہ ہمیں اپنی تنظیم سازی کا مرحلہ روکنا پڑا لیکن عام انتخابات میں التوا کے ذمے دار ہم نہیں ہیں اور جیسے ہی عام انتخابات ہو جائیں گے تو تنظیم سازی کا عمل دوبارہ شروع ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پی ٹی آئی کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس پر الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ آ چکا ہے اور وہ غالباً اس پر عدالت جا رہے ہیں، میں عوامی نیشنل پارٹی کی بات کروں گا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ تمام اداروں، قانون اور آئین کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا انتہائی احترام ہے لیکن شاید یہ کوشش کی جارہی ہے کہ دوسری جماعت سے ان کا انتخابی نشان لینے کے بعد شاید اب یہ سوچا جارہا ہے کہ جس طرح نوازشریف صاحب کو نااہل کرنے کے لیے جہانگیر ترین صاحب کو بھی نااہل کرنا پڑا تھا تو امکان یہ ہے کہ ایک فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے اے این پی کے خلاف بھی فیصلہ کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ لیا گیا تو یہ سراسر آئین اور قانون کے خلاف ہو گا، ہم جلاؤ گھیراؤ والے لوگ نہیں ہے، ہمیں اداروں، قانون اور آئین کا احترام ہے لیکن پچھلے 2 انتخابات میں ہمارے خلاف جو سازشیں ہوئی ہیں اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو ہم کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔
امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے، کچھ راز ہیں، انہیں راز ہی رہنے دیں، 2013 میں پورے پاکستان کے لیے الیکشن کمیشن اور چیف کمشنر فخر لادین جی ابراہیم تھے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے لیے الیکشن کمیشن نہیں تھا بلکہ طالبان کی شوریٰ اور حکیم اللہ محسود تھا، لوگ جلسے کررہے تھے اور ہم اپنے شہدا کے جنازے اٹھا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں ایک مرتبہ پھر ہمیں دیوار سے لگایا گیا، کسی کو لانے کے لیے ہمیں نکالا گیا، کسی کو کامیاب بنانے کے لیے ہمیں ناکام بنایا گیا، ہم ان زخموں کو بھولنا چاہتے ہیں لیکن اگر ہمیں تازہ زخم دیں گے تو ہم ان زخموں کو بھولیں نہیں پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے گزارش ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو، وہ اس ملک کے آئین اور قانون کے مطابق ہو، کون قبول ہے اور کون مقبول ہے ہم اس سے کوئی غرض نہیں، ہم اس لرائی کا حصہ تھے نہ اس لڑائی کا حصہ بننہ چاہتے ہیں لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہم سے عوام کی نمائندگی کا حق چھینے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو ہمیں حق ہے کہ ہم قانونی جنگ بھی لڑیں اور سیاسی جنگ بھی لڑیں اور ایسی سیاسی جنگ بھی لڑیں گے کہ عوامی نیشنل پارٹی میں آپ کو کوئی پریس کانفرنس کرنے والا نہیں ملے گا، ہم پھر ایک آواز ہو کر اپنی بقا کے لیے میدان میں لڑیں گے۔