پاکستان

حکومت کا زیرِ حراست 290 بلوچ مظاہرین کو رہا کرنے کا دعویٰ

فیصلہ بلوچ مظاہرین اور کابینہ کمیٹی کے درمیان مذاکرات کی روشنی میں کیا گیا، پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، وزارت داخلہ

نگران حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف اسلام آباد میں مظاہرے کے دوران گرفتار کیے گئے 290 بلوچ مظاہرین کو جیل اور پولیس کی حراست سے رہا کر دیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے ’ایکس‘ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ بلوچ مظاہرین اور کابینہ کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایک بلوچ نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد بلوچ مظاہرین کی جانب سے 6 دسمبر کو تربت میں شروع ہونے والا احتجاجی مارچ گزشتہ ہفتے اسلام آباد پہنچا تھا۔

تاہم مظاہرین کو روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے طاقت کا بیہمانہ استعمال کیا گیا اور اسلام آباد پولیس نے 200 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لے لیا، اِس کریک ڈاؤن کے ردعمل میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت میں یہ احتجاجی مارچ نیشنل پریس کلب کے باہر دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔

ہفتہ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومت کو 3 دن کا الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ بلوچ طلبہ اور کارکنوں کے خلاف درج مقدمات ختم کریں اور تمام مظاہرین کو رہا کریں۔

گزشتہ روز (اتوار کو) اسلام آباد پولیس نے اعلان کیا تھا کہ حراست میں لیے گئے تمام مظاہرین کی ضمانت منظور ہونے کے بعد رہا کیا جارہا ہے، پولیس نے زیرِحراست افراد کی رہائی کے لیے ایک ’اسپیشل ہیلپ سینٹر‘ بھی قائم کردیا تھا۔

آج جاری ہونے والے بیان میں وزارت داخلہ نے تصدیق کی کہ وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کے مذاکرات اور عدالت کے فیصلے کی روشنی میں پولیس تحویل اور جیل سے مجموعی طور پر 290 مظاہرین کو رہا کردیا گیا ہے۔

بیان میں وزارت داخلہ کی جانب سے واضح کیا گیا کہ پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ ریڈ زون کی سیکیورٹی کو ہر صورت یقینی بنایا جاتا ہے، ریڈ زون میں آئینی ادارے اور ڈپلومیٹک انکلیو ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے خصوصی ہیلپ سینٹر قائم کیا گیا تھا جس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔

’100 سے زائد بلوچ مظاہرین تاحال زیر حراست یا لاپتا ہیں‘

دریں اثنا گزشتہ شب ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا کہ اب تک صرف 160 مظاہرین کو رہا کیا گیا ہے اور 100 سے زائد مظاہرین تاحال پولیس کی حراست میں ہیں یا ’لاپتا‘ ہیں۔

کمیٹی کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس نے مظاہرین اور میڈیا کو درست معلومات فراہم نہیں کیں، حراست میں لیے گئے مظاہرین میں سے ایک ڈاکٹر ظہیر بلوچ تاحال لاپتا ہیں، ہمیں ان کی جان کی فکر ہے۔

علاوہ ازیں مارچ کے منتظمین میں سے ایک ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے تمام مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

عام انتخابات کی تیاریاں دوسرے مرحلے میں داخل، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال جاری

آسٹریلوی کپتان کی غزہ کے حوالے سے عثمان خواجہ کے ’مؤقف‘ کی حمایت

پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی آج کرسمس کا تہوار منا رہے ہیں